روسی میزائل، ترکی نے امریکی اعتراض مسترد کر دیا
10 مارچ 2019ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے روس کے ساتھ جدید میزائل نظام S-400 کی خرید کے لیے کیے گئے ایک عسکری معاہدے کا دفاع کیا ہے۔ ایردوآن کے مطابق ایس 400 میزائل شکن نظام کا امریکی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قبل ازیں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے روس اور ترکی کے مابین ہونے والے اس سودے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کے مطابق اگر انقرہ اس میزائل نظام کی خرید کے معاملے کو آگے بڑھاتا ہے تو اسے ’’سنگین نتائج‘ بھگتنا ہوں گے۔
ترکی کے جنوب مشرقی شہر دیارباقر میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ ترکی نے یہ نظام خریدا ہے، اسے کن حالات میں خریدا ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے گا۔‘‘
ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے اس خطاب میں ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ اس معاملے کا تعلق نیٹو، ایف 35 پراجیکٹ یا امریکا کی سکیورٹی سے کوئی نہیں۔‘‘ ایردوآن کے مطابق یہ ’’مسئلہ ایس چار سو میزائل کا نہیں ہے‘‘ بلکہ ترکی کی طرف سے ’’اپنے طور پر ایکشن لینے کا ہے‘‘ خاص طور شام میں۔
انقرہ کی طرف سے روسی دفاعی میزائل نظام خریدنے کا فیصلہ اس کا اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تناؤ کا سبب بنا ہے کیونکہ واشنگٹن نے اس میزائل نظام کی نیٹو اتحادیوں کے پہلے سے زیر استعمال ہتھیاروں کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
امریکا کا خیال ہے کہ ماسکو حکومت کی طرف سے ترکی کو S-400 میزائل نظام فروخت کرنے کا مقصد اس مغربی دفاعی اتحاد کے اندر دراڑ ڈالنے کی کوشش ہے کیونکہ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب روس یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان چارلی سمرز نے جمعہ آٹھ مارچ کو متنبہ کیا تھا کہ اگرانقرہ حکومت اس معاہدے پر آگے بڑھتی ہے تو اسے ’سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہا امریکی ایف 35 جیٹ لڑاکا طیارے اور امریکی دفاعی میزائل نظام پیٹریاٹ ترکی کو فراہم کرنے کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں امریکا نے ترکی کو یہ نظام فروخت کرنے کے 3.5 بلین ڈالرز مالیت کی ایک معاہدے کی منظوری دی تھی۔
مگر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ وہ روسی میزائل نظام خریدنے کے اپنے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ا ب ا / ع ب (اے ایف پی)