روس اور جارجیا کی جنگ: ایک سال ہو گیا
6 اگست 2009جارجيا کے صدر ساکاش ویلی کو منحرف جنوبی اوسيتسيا پر چڑھائی میں ناکامی کا منہ ديکھنا پڑا تھا۔ تاہم ايک سال قبل ان کی يہ شکست صرف فوجی ہی نہيں تھی بلکہ اس کے بعد سے ان کی سياسی حمايت ميں بھی زبردست کمی ہو گئی ہے۔
اِس ناکامی کے بعد جارجيا ميں صدر ساکاش ويلی کے خلاف سرگرم اپوزيشن کا ساتھ دينے والوں ميں اور اضافہ ہوگيا۔ اب وہ محض پوری توانائياں صرف کرکے اور مشکوک طريقے استعمال کرتے ہوئے ہی اپنا اقتدار قائم رکھ پا رہے ہيں۔
خارجہ پاليسی کے اعتبار سے بھی ساکاش ويلی کے لئے حالات سازگار نہيں ہيں۔ يورپ ميں انہيں ايک ایسا ناقابل اعتبار سياستدان سمجھا جا رہا ہے، جس کے طرز عمل کے بارے ميں کسی قسم کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اگرچہ صدر اوباما کے تحت نئی امريکی حکومت بھی مغربی دُنیا کے ساتھ جارجياکے بڑھتے ہوئے تعلقات کی آئندہ بھی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے ليکن نائب امريکی صدر جو بائيڈن اپنے حالیہ دَورہء جارجيا ميں خبردار کرچکے ہيں کہ جارجيا ميں علٰيحدگی پسندی کے تنازعات کو طاقت کے ذريعے حل کرنے کی ايک اور کوشش نہ کی جائے۔ نيٹو ميں جارجيا کی شموليت کے امکان کو بھی رد نہيں کيا جا رہا ہے تاہم مستقبل قريب ميں اس کا امکان بھی نظر نہيں آتا۔
روس کو بھی ایک سال پہلے کی اِس جنگ کا حقيقتا فاتح نہيں کہا جا سکتا۔ اگرچہ وہ حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے ميں کامياب رہا ہے، جو اس کے لئے فائدہ مند ہے ليکن اس کی بڑی فوجی کارروائی کا اصل مقصد حاصل نہيں ہوسکا جوکہ جارجيا کے صدر ساکاش ويلی کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
دوسری طرف روس کو اپنی فوجی کارروائی کی بھاری قيمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ يورپ ميں فوجی لحاظ سے دوبارہ اپنے زور بازو کا مظاہرہ کرنے والے روس پر بد اعتمادی ميں اضافہ ہوا ہے۔
جنوبی اوسيتيا پر قبضے کے لئے روس اور جارجيا کی جنگ نے يورپي ممالک کو ايک مشکل صورتحال سے دوچار کر ديا ہے۔ يہ جنگ يورپی خارجہ اور سلامتی کی مشترکہ پاليسی کی غالبا سب سے مشکل آزمائش تھی اور اس سے اس پاليسی کے تقريباً تمام ہی مسائل سامنے آ گئے۔ اِن مسائل کا تعلق روس کے ساتھ يورپی تعلقات، امريکہ کے ساتھ يورپ کے روابط، نيٹو کے فوجی اتحاد اور يورپی يونين کے باہر يونين کی خود اپنی پاليسی سے تھا۔
تبصرہ : انگو من ٹوئِفَل / شہاب احمد صدیقی
ادارت : امجد علی