روس ایرانی جوہری معاہدے کو سبوتاژ نہ کرے، مغربی ممالک
9 مارچ 2022ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں اس کے خلاف عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے اور سن 2015 کے جوہری معاہدے میں واشنگٹن اور تہران کو واپس لانے کے حوالے سے گزشتہ گیارہ ماہ سے جاری مذاکرات اب آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں۔ ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار اس معاملے پر حتمی مشاورت کے لیے تہران گئے ہیں اور ان کے واپس آنے کے بعد معاہدے پر دستخط کی امید ہے۔
ایسے میں روس نے کہا ہے کہ معاہدہ ہونے سے قبل امریکہ اسے یہ ضمانت دے کہ جوہری معاہدہ بحال ہو جانے کی صورت میں ایران کے ساتھ اس کے اقتصادی تعلقات متاثر نہیں ہوں گے اور یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کے خلاف مغربی ملکوں کی جانب سے عائد پابندیوں کے مدنظر ایران کے ساتھ اس کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس نئے مطالبے کی وجہ سے اس جوہری معاہدے کی بحالی کا معاملہ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ مغربی طاقتوں نے منگل کے روز روس کو متنبہ کیا کہ وہ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے سے باز رہے۔
'روس اپنی کوشش سے باز رہے'
امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ نے کہا کہ روس جوہری معاہدے کی بحالی کی کوشش میں اپنی شرکت کا اضافی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
نولینڈ نے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو بتایا،''روس(جوہری معاہدے) کے حوالے سے اپنے مطالبات پر زور دینے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
ایک ایرانی اور یورپی عہدیدار نے بتایا کہ ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری کنی بدھ کو ویانا واپس آنے والے ہیں۔وہ پیر کے روز غیر متوقع طور پر مشاورت کے لیے تہران چلے گئے تھے۔
یورپی یونین کے رابطہ کار اینریکے مورا نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مذاکرات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی فیصلے کیے جائیں۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقو ام متحدہ کے ادارے کو ارسال کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا،''ایک اہم موقع ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو ابھی مکمل کرنے کے لیے ضروری فیصلے کریں اور روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے میں غیر متعلق شرائط شامل نہ کرے۔‘‘
ایران کیا چاہتا ہے؟
ایران نے اپنے اوپر عائد تمام پابندیوں کو ختم کرانے کی کوشش کی ہے اور وہ امریکہ سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ واشنگٹن ایک بار پھر اس معاہدے سے دست بردار نہیں ہو گا۔ خیال رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکہ کو اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ کر لیا تھا اور ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی اختلافات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ایران پر کون سی پابندیاں عائد رہیں گی بالخصوص ایران کے پاسداران انقلاب فورس کے حوالے سے فیصلے واپس لیے جائیں گے یا نہیں اور واشنگٹن اس ضمن میں کیا ضمانتیں دیتا ہے۔
دو مغربی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ معاہدے کا حتمی متن ابھی تیار نہیں ہوا ہے۔
فرانس کی فکر
دریں اثنا فرانس نے منگل کے روز متنبہ کیا کہ مزید تاخیر عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان بحال ہونے والے جوہری معاہدے کو روک سکتی ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اضافی ضمانتوں کے متعلق روس کے مطالبات کے حوالے سے کہا، ''ہم ایک معاہدے کے بہت قریب ہیں، لیکن پیرس ان خطرات کے بارے میں بہت فکر مند ہے، جو مزید تاخیر کے سبب بن سکتے ہیں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ روس کے مطالبات''بے محل‘‘ ہیں۔
ج ا/ (روئٹرز، اے ایف پی)