روس نے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی، امریکی سینیٹ
4 جولائی 2018امریکا میں ملکی پارلیمان کانگریس کہلاتی ہے، جس کے دو ایوان ہیں، ایوان زیریں یعنی ایوان نمائندگان اور ایوان بالا جو سینیٹ کہلاتا ہے۔ واشنگٹن سے بدھ چار جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق روس پر 2016ء کے موسم خزاں سے ہی یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ماسکو نے امریکا کے ان صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی، جن کے نتیجے میں ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تھے۔
امریکا میں اس بارے میں مختلف سطحوں پر چھان بین ہوتی رہی ہے کہ آیا ماسکو نے واقعی امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ اب پہلی بار امریکی ایوان بالا کی انٹیلیجنس کمیٹی نے اس بارے میں اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ روس نے یہ مداخلت کی تھی۔ ڈی پی اے کے مطابق اس سلسلے میں سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے، وہ یقینی طور پر صدر ٹرمپ کو پسند نہیں آیا ہو گا، اس لیے کہ ٹرمپ بار بار ان دعووں کی تردید کرتے رہے ہیں کہ ان کی انتخابی مہم کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر روس کے ساتھ کوئی روابط تھے۔
سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی نے اب امریکی خفیہ اداروں کے اس موقف کی کھل کر تائید کر دی ہے کہ روس نے دو سال پہلے ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں اس لیے مداخلت کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کی جا سکے۔ یہ بات سینیٹ کی اس کمیٹی کی ایک ایسی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو ریپبلکن سینیٹر رچرڈ بَر نے ڈیموکریٹ سینیٹر مارک وارنر کے ساتھ مل کر پیش کی ہے۔
انتخابی سیاست کی سطح پر ٹرمپ اور روس کے روابط سے متعلق امریکی سینیٹ کا یہ موقف ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کی سربراہی ملاقات میں چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہی موقف اور اس بارے میں امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی رپورٹ اس وجہ سے بھی بہت اہم ہیں کہ ان میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، وہ صرف ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹ سیاستدانوں نے ہی نہیں کہا بلکہ ایوان بالا میں ڈیموکریٹس اور ٹرمپ کی اپنی ریپبلکن پارٹی دونوں کی سوچ یہی ہے۔
ریپبلکن سینیٹر رچرڈ بَر نے اس بارے میں واشنگٹن میں کہا کہ سینیٹ نے اپنے اس موقف تک پہنچنے کے لیے 16 ماہ تک ایسی بے شمار دستاویزات اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کیا، جن کی بنیاد امریکی خفیہ اداروں کو ملنے والی اطلاعات تھیں۔ سینیٹر بَر کے مطابق، ’’اس امر کی کوئی وجہ نہیں کہ امریکی انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹوں میں اخذ کردہ نتائج کی تردید کی جا سکے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں ہی کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اپنے اپنے طور پر ان الزامات کی چھان بین کر رہی تھیں۔ سینیٹ میں اگر دونوں سیاسی جماعتوں کے نمائندہ اراکین نے یہ کہا ہے کہ روس نے یہ مداخلت کی تھی تو ایوان نمائندگان کی انٹیلیجنس کمیٹی میں ابھی تک انہی دونوں پارٹیوں میں یہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ آیا روس نے یہ مداخلت کی تھی یا نہیں۔
اسی سلسلے میں خصوصی تفتیش کار رابرٹ میولر بھی ابھی تک اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آیا روس نے 2016ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔
م م / ع ا / ڈی پی اے، اے ایف پی