روس پر عائد نئی پابندیاں کتنی شدید ہیں؟
25 فروری 2022جیسے ہی جمعرات تیئیس فروری سے یوکرائن پر روس نے وسیع حملے کا آغاز کیا تو اس کی توقع کی جا رہی تھی کہ ماسکو حکومت کو جلد ہی امریکا، یورپی یونین اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے کئی قسم کی شدید اقتصادی و تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
یوکرائن روس سے مقابلے کے لیے کیا تدابیر کر رہا ہے؟
اب امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے ماسکو پر نئی سخت پابندیوں کا اطلاق کر دیا ہے۔ پابندیوں کے اولین سلسلے کا نفاذ بدھ بائیس فروری کو اس وقت کر دیا گیا تھا، جب صدر پوٹن نے اپنی افواج کو مشرقی یوکرائن میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا۔
پابندیوں کی نوعیت
مختلف تجزیہ نگاروں نے ابتدا میں ان پابندیوں کو مسترد کر دیا تھا کہ ان میں شدت کا فقدان ہے اور یہ روس پر وسیع تر اثرات مرتب نہیں کر سکتی ہیں۔ اسی وقت اندازہ لگایا گیا تھا کہ بڑے حملے کی صورت میں شدید پابندیوں کا نفاذ کیا جائے گا۔ جمعرات سے روس کے بڑے حملے کے بعد عائد کی جانے والی پابندیوں کو 'شدید اور تباہ کن‘ قرار دیا گیا ہے۔
براہِ راست نشر کی جانے والی تقریر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے شدید پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روس کو یوکرائن پر حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور اس کی معیشت کو گہرے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوکرائن میں پھنسے پاکستانی کس حال میں ہیں؟
مالیاتی ادارے پابندیوں میں جکڑ دیے گئے
پابندیوں کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں روس کے دو بڑے بینکوں کو ہدف بنایا گیا۔ ان میں ایک سَبیر بینک اور دوسرا وی ٹی بی بینک ہے۔ یہ دونوں ریاستی ملکیت ہیں۔ سَبیر بینک روس کے ایک تہائی اثاثوں کا مالک ہے۔
نئی پابندیوں کے تحت یہ دونوں بینک ڈالر کرنسی میں اپنے مالی معاملات آگے بڑھانے سے قاصر ہو ں گے۔ دوسرے وی ٹی بی بینک روس کے سولہ فیصد اثاثوں کا مالک ہے۔ اس کے امریکا میں تمام اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔
بینکنگ پابندیوں کے زمرے میں روس کے تین بڑے مالیاتی ادارے بھی شمار کیے گئے ہیں۔ ان میں اوٹکریٹی، نوویکوم اور سووکوم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ نوے چھوٹے مالیاتی اداروں کی سرگرمیوں کو بھی مکمل طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ تمام ادارے عالمی بینکنگ نظام کے ساتھ مل کر اقتصادی معاملات آگے بڑھاتے ہیں۔
یہی روسی ادارے روزانہ کی بنیاد پر اسی فیصد بین الاقوامی مالیاتی ٹرانزیکشنز میں شامل ہوتے ہیں اور اسی سلسلے کو امریکی پابندیوں سے روکنا مقصود ہے۔
جرمن سیاستدانوں کے پاس آپشن محدود ہیں، جرمن فوج کے سربراہ
تجارت پر کنٹرول اور دیگر پابندیاں
امریکی صدر نے اہم ٹیکنالوجی کی روس کو فراہمی پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے روس کو ہوائی جہازوں کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پابندیوں میں روس کی فوج کے زیر استعمال سینسرز، لیزرز اور ٹیلی کمیونیکیشنز کی دیگر مصنوعات تک رسائی کو روکنا بھی مقصود ہے۔
برطانیہ نے روس کے تین امیر کبیر افراد کو پابندیوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ بعض پابندیاں روس کے بڑے حلیف بیلاروس پر بھی عائد کی گئی ہیں۔ برطانیہ کی طرح امریکی وزارتِ خزانہ بھی روسی اشرافیہ کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
یوکرائن پر روس کا حملہ، عالمی رہنماؤں کا ردعمل
ایسی باتیں بھی گردش میں ہیں کہ روس کو بین الاقوامی مالیاتی ادائیگیوں کے نظام سوفٹ (SWIFT) سے بھی علیحدہ کر دیا جائے گا۔ ابھی اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے جبکہ جرمنی اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سب سے شدید پابندی ہو گی۔ ایسا بھی سامنے آیا ہے کہ نہ صرف جرمنی بلکہ بعض دیگر امریکی اتحادی بھی اس پابندی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔
آرتھر سولیوان (ع ح/ ا ا)