روس کا آرکٹک کے وسیع علاقے پر اختیار کا دعویٰ
4 اگست 2015
حالیہ چند برسوں میں معدنیات اور ہائڈرو کاربن سے مالامال یہ علاقہ بین الاقوامی کشیدگی کا سبب بن گیا ہے اور متعدد ممالک اس پر اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گیس اور تیل کے بے پناہ ذخائر کے حوالے سے بھی یہ خطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
روس نے جس علاقے پر اپنا حق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس میں قطب شمالی بھی شامل ہے۔ اگر یہ علاقہ روس کے حوالے کر دیا جاتا ہے تو روس کو چار اعشاریہ نو بلین ٹن ہائیڈرو کاربن تک رسائی ہو جائے گی۔
بین لاقوامی قانون کے مطابق صرف اس ملک کو کونٹینینٹل شیلف کے معاشی حقوق پر اختیار ہو سکتا ہے جو کہ اس کی ساحلی حدود کے دو سو ناٹیکل میل کے فاصلے کے اندر ہوں۔ آرکٹِک کے ممالک بھی اس علاقے، بلکہ اس سے وسیع تر علاقے کے حقوق کے دعوے دار ہیں۔
روس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس حوالے سے ایک تحقیق کروائی ہے جس کے مطابق اس کے ساحل سے دو سو ناٹیکل میل نہ صرف اس علاقے بلکہ اس سے بڑے علاقے کا احاطہ کرتے ہیں۔
سن دو ہزار ایک میں بھی روس نے اقوام متحدہ کے ایک کمیشن کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کے پاس ایسے سائنسی شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علاقہ روس کی سرحدی حدود میں آتا ہے۔ اس کے بعد روس نے وسیع پیمانے پر آرکٹِک کے علاقے میں اپنے مشن بھیجے جن کا کام وہاں سے مزید شواہد حاصل کرنا تھا۔
تازہ ترین درخواست کے بارے میں روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسے ترجیحی بنیادوں پر اقوام متحدہ کے حوالے کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اس کا جائزہ اس سال کے اواخر میں لے گا۔
حالیہ چند برسوں کے دوران روسی صدر نے آرکٹِک کے علاقے پر اپنی توجہ بڑھا دی ہے۔ روسی حکومت نے آرکٹِک کے لیے ایک خصوصی کمیشن بھی تشکیل دیا ہے جو اس علاقے میں روسی کے معاشی اور دفاعی منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل روس نے اس علاقے میں جنگی مشقیں بھی کی تھیں۔ گزشتہ ہفتے روسی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس کی نئی بحری پالیسی کا محور آرکٹِک کا علاقہ ہی ہوگا۔