زرداری کی واپسی: افواہیں ختم ،نئے مباحثے شروع
19 دسمبر 2011آصف زرداری پیر کو وطن واپس پہنچے تو ان کے ہمراہ چند رفقاء کے علاوہ صاحبزادی آصفہ بھی تھیں۔ صدر کی واپسی پر حکمران پیپلز پارٹی کی قدرے مایوس قیادت اور کارکنوں کا اعتماد بھی بحال ہو گیا۔ پی پی پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صدر کی واپسی نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھاگنے والے نہیں۔
زرداری ایک ایسے موقع پر پاکستان پہنچے جب پیر کے روز سپریم کورٹ میں متنازعہ میمو اسکینڈل کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر صدر نے میمو کے معاملے پر اپنا جواب عدالت میں داخل نہ کرایا تو اس کے قانونی مضمرات ہوں گے۔ ادھر عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اپوزیشن صدر زرداری کی خرابی صحت پر سیاست کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا: ہمارا تعلق صدر کی بیماری سے نہیں ہے۔ بیماری ایک الگ معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے ہم نے کبھی بیماری پر بات نہیں کی، جب چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی عدالت میں آ کر کہتے ہیں کہ میمو حقیقت ہے جو کہ ملکی سالمیت ، اس کے مفاد اور اس کے اداروں کے خلاف سازش ہے۔ اس لیے میمو کا معاملہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم اور حسّاس مقدمہ ہے اور اس کا سیاست سے نہیں سالمیت سے تعلق ہے۔ ملک کی سالمیت کے دشمن غدار ہوتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ وہ صدر کی واپسی کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی نصیر بھٹہ کا کہنا ہے کہ صدر کو اب بہت سی باتوں کا جواب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا: ’’اچھی بات ہے صدر واپس آئے ہیں ان کو اپنا دفاع کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر وہ واپس نہ آتے تو ان کے پاس جواز ہوتا کہ ہم بیماری کی حالت میں ملک سے باہر تھے۔ انہیں باقاعدہ دفاع کا موقع نہیں دیا گیا جس طرح این آر او کے حوالے سے انہوں نے پلٹے اور قلابازیاں کھائیں۔ کبھی کہا کہ ہم اس کا دفاع نہیں کریں گے، کبھی نظر ثانی کی درخواستیں دیں تو میرا خیال ہے کہ اس صورتحال سے بچا جائے گا جو اچھی بات ہے۔‘‘
دوسری جانب میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی سماعت آگے بڑھے گی تو پھر مقدمے کے اور بھی فریقین کو جواب دینے پڑیں گے۔ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’’جب آپ پوری بات کریں گے تو یہ بھی سامنے آئے گا کہ آخر آئی ایس آئی کی چور کی داڑھی میں تنکا تھا کہ نہیں؟ وہ کس لیے تحقیقات کرنے چلے گئے ۔ کیا تحقیقات کر رہے تھے۔ کس نے انہیں اختیار دیا تھا اور اگر ان کو اس پر اتنا خدشہ تھا تو کیا وہ سویلین حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے یا نہیں؟ کیا وہ غداری کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔‘‘
دریں اثناء سپریم کورٹ نے متنازعہ میمو اسکینڈل کی سماعت 22 دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل