سرکاری جامعات کے بجٹ میں کٹوتی، اساتذہ کا ملک گیر احتجاج
21 دسمبر 2019اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن )اے ایس اے( کے اعدادو شمار کے مطابق حکومت نے ملک کی دو سو کے قریب سرکاری جامعات کے ليے مطلوبہ ایک سو تین ارب روپے کے بجٹ کو کم کر کے 43 ارب روپے کر دیا ہے۔ بجٹ میں کٹوتی سے جامعات کے اساتذہ اور دیگر عملے کی تنخواہیں مزید کم ہو گئی ہیں۔ اساتذہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ان کے الاؤنسز اور اوور ٹائم کی ادائیگی بھی روک دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ احتجاج کے پہلے مرحلے میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کی کال دی گئی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں جامعات کی غیر معینہ مدت تک بندش کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔
سرکاری جامعات کی نمائندہ تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے رہنما پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کے بقول جامعات کے فنڈز میں کٹوتی سے ملک کی سرکاری جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہو گئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا دعوٰی کیا تھا۔ اس دعوے پر حکومت نے عمل درآمد تو درکنار پہلے سے مختص فنڈز بھی کم کر دیے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے غریب عوام کا واحد سہارا ملک کی سرکاری جامعات ہیں۔ ان جامعات کو بھی اب تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ ہماری نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے بھی دور رکھا جا سکے۔‘‘
کلیم اللہ بڑیچ کا مزید کہنا تھا کہ جامعات کے بجٹ میں پچاس فیصد سے زائد کٹوتی جامعات کے اساتذہ اور ملازمین کے معاشی استحصال کے مترادف ہے۔ ان کے بقول، "اس وقت ملک میں سرکاری تعلیمی ادارے جس زبوں حالی کا شکار ہیں اس کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ حکمران اپنی تقریروں اورمیڈیا کو جاری کیے گئے بیانات کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں صرف دھول جھونکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ زمینی حقائق اس صورتحال سے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کی تمام سرکاری جامعات میں مالی بحران اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے بھی پیسے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس ضمن میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا ۔‘‘
بلوچستان کے معروف ماہر تعلیم اور ایجوکیشن ریویو کمیٹی کے چیئرمین اے این صابر کہتے ہیں کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کاحصول اس لیے بھی دن بدن مشکلات سے دو چار ہوتا جا رہا ہے کیونکہ جامعات کے بنیادی مسائل پرکوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''اس وقت سرکاری جامعات جن بحرانوں سے دوچار ہیں ان کی ایک اہم وجہ اندرونی بدانتظامی بھی ہے۔ ان جامعات کے اندر قواعد وضوابط کی سنگیں خلاف ورزیوں کی وجہ سے طلباء وطالبات کو معیاری تعلیم نہیں مل رہی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد شرح تعلیم میں غیر معمولی کمی کی ایک اہم وجہ بھی یہی صورتحال ہے۔‘‘
اے این صابر کا مزید کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے صوبوں کو زیادہ خودمختاری ملی ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں،''سرکاری جامعات میں تعینات اکیڈمک اسٹاف کو اندرونی پالیسی سازی سے ہمیشہ دور رکھا گیا ہے۔ اساتذہ کو اہم امور سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ غیر متعلقہ لوگوں سے تعلیمی پالیسیاں مرتب کرائی جا رہی ہیں۔ بعض سرکاری جامعات میں فیسوں کی وصولی کی آڑ میں بھی بڑے پیمانے پر بےقاعدگیاں ہو رہی ہیں۔ اگر جامعات کے اندر بدانتظامی کے معاملات پر توجہ دی جائے تو اس ضمن میں دوچار بحرانوں سے کافی حد تک چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔‘‘
اسلام آباد میں مقیم ماہر تعلیم عارف کاظمی کے بقول ملک میں اعلیٰ تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے موجودہ حکومت سنجیدگی کا کوئی مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامعات کی صورتحال اس وقت انتہائی گھمبیر شکل اختیار کر چکی ہے،'' اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کی کٹوتی سے جامعات میں مالی توازن درہم برہم ہو چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منشور میں کیے گئے ان دعوؤں کو بھول چکی ہے جو کہ الیکشن سے قبل کیے گئے تھے۔ اس وقت ملک کے صف اوّل کی بہترین جامعات، جن میں قائد اعظم یونیورسٹی بھی شامل ہے، میں ایسے بحران جنم لے چکے ہیں جن سے طلباء وطالبات کا مستقبل براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔‘‘
عارف کاظمی کا کہنا تھا کہ فنڈنگ کی کمی کا مسئلہ دور کرنا حکومت کی اّولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ پبلک سیکٹر جامعات کی افادیت اور کارکردگی متاثر نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا،''سرکاری جامعات کے اندر اگر مالی بحران کی یہ صورتحال بر قرار رہی تومستقبل میں ملک کے کئی بڑے تعلیمی ادارے تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جامعات پرغیر ضروری قدغن لگانے کے بجائے ان کے علمی اور معاشی خود مختاری کا تحفظ یقینی بنانا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں مالی بحران سے دوچار ملک کی کئی اہم سرکاری جامعات میں داخلے کو بھی سیلف فنانس سسٹم پر منتقل کیا گیا ہے۔ رواں سال 25 اور 26 ستمبر کو سندھ بھر کی سرکاری جامعات میں بھی اساتذہ اسی بحرانی کیفیت کے خلاف ہڑتال کر چکے ہیں۔ ماہرین تعلیم کے بقول جامعات کے بجٹ میں کمی سے ملک میں معیار تعلیم بری طرح متاثر ہوگا اور اعلیٰ تعلیم غریب طلباء کے پہنچ سے دور ہو جائے گی۔