سعودی خاتون کو زندگی بھر ایک مرد کا سامنا رہتا ہے
19 مئی 2017سعودی عرب میں ایک خاتون کو بچپن سے لے کر عمر کے آخری حصے تک کسی مرد کا سہارا لازمی طور پر درکار ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں اُسے باپ کی انگلی پکڑنا ہوتی ہے، پھر شوہر اور بڑھاپے میں اُسے اپنے بیٹے کی حیثیت کے سامنے سر جھکا کر رہنا پڑتا ہے۔ اس طرح عمر کے ہر حصے اور ہر دور میں اُسے ہر کام کے لیے سرپرست یا قانونی ولی کی اجازت درکار ہوتی ہے، جسے یقینی طور پر مرد ہی ہونا چاہيے۔
سعودی عورت کو پاسپورٹ بھی سرپرست کی اجازت کے بغیر جاری نہیں کیا جاتا۔ سعودی عائلی قوانین کے تحت کوئی بھی لڑکی یا عورت شادی یا غیر ملک کا سفر بھی قانونی ولی (مرد) کے بغیر نہیں کر سکتی۔ سماجیات کے ماہرین کے مطابق سعودی عرب میں جنسی عدم مساوات کی ایک بڑی وجہ یہی عائلی قوانین ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی بھی عورت آزاد زندگی بسر کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتی۔
اقوام متحدہ کے ایک کمیشن میں سعودی عرب کے منتخب ہونے پر عالمی سطح پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا گیا اور ایسا کرنے والے اس ملک میں جنسی تفریق کی بنیاد پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے ایشیا بحرالکاہل کے لیے قائم کمیشن میں سعودی عرب کے منتخب ہونے کی مذمت کی ہے۔ اس ادارے نے سعودی عرب کو دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کو صلب کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب میں اسلامی شریعت کی انتہائی قدامت پسندانہ تشریح ملکی اصولوں اور ضوابط کی بنیاد خیال کی جاتی ہے۔ عالمی اضطراب کے تناظر میں خواتین کے معاملات میں انتہائی معمولی سی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ ہفتے سعودی فرماں روا شاہ سلمان نے مختلف محکموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ صرف ایسے معاملات میں قانونی ولی کی اجازت طلب کریں، جہاں واقعی ضرورت ہو۔
ایک چھیانوے سالہ سعودی خاتون نائلہ محمد صالح ناسیف نے قانونی ولی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے اُن کا بیٹا اُن کا سرپرست ہے اور انہيں ہر کام میں اُس کی اجازت درکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد سعودی وزارت خزانہ میں ملازمت کرتے تھے اور اُن کے شوہر ملکی حکومت کے وزیر صحت رہ چکے ہیں۔ اُن کے مطابق انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی پرورش مساوی انداز میں کی ہے لیکن حکومتی قانون کے تحت شوہر کی رحلت کے بعد اب اُن کا بڑا بیٹا ہر معاملے میں اُن کا سرپرست بن چکا ہے۔