سعودی عرب میں بدسلوکی، یوگنڈا نے خادمائیں بھیجنا بند کر دیں
23 جنوری 2016بائیس جنوری جمعے کو دارالحکومت کمپالا میں یہ اعلان کرتے ہوئے یوگنڈا کی حکومت نے یہ بھی کہا کہ خادمائیں بھیجنے کا یہ سلسلہ اُس وقت تک بند رہے گا، جب تک کہ سعودی عرب میں کام کے حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے۔
ریاض اور کمپالا حکومتوں کے مابین گزشتہ سال جولائی میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یوگنڈا کے یونیورسٹی گریجویٹس کو معدنی تیل سے مالا مال سعودی عرب بھیجا جائے گا۔ یوگنڈا کی نوجوان نسل میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس معاہدے کا مقصد اس مسئلے سے بھی نمٹنا تھا۔
کمپالا میں صنفی امور، محنت اور سماجی بہبود کی وزارت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یوگنڈا کی حکومت کو اپنے ان ورکرز کی جانب سے بہت سی شکایات موصول ہوئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ سعودی عرب میں آجرین کی جانب سے اُن کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
کمپالا حکومت کی جانب سے تازہ اعلان اُس آڈیو کلپ کے بعد ہوا ہے، جس کا رواں ہفتے یوگنڈا کے سوشل میڈیا میں بہت چرچا رہا اور جس میں یوگنڈا کے سعودی عرب میں کام کی غرض سے مقیم شہریوں نے یہ بتایا تھا کہ سعودی عرب میں اُنہیں قید میں رکھا جاتا ہے اور اُن پر تشدد کیا جاتا ہے۔
یوگنڈا کی جانب سے فراہم کردہ سرکاری اطلاعات کے مطابق کمپالا اور ریاض حکومتوں کے مابین معاہدے کے بعد سے تقریباً پانچ سو خادماؤں کو سعودی عرب بھیجا گیا۔ اینٹیبی ایئرپورٹ پر موجود ایک امیگریشن افسر کا البتہ اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر کہنا یہ تھا کہ ہر روز یوگنڈا کے اوسطاً ایک سو شہری کام کی تلاش میں سعودی عرب کا سفر اختیار کرتے ہیں۔
اس سے پہلے انڈونیشیا، ایتھوپیا اور فلپائن اپنے شہریوں کے ملازمت کی غرض سے سعودی عرب کے سفر پر پابندی لگا چکے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ جب تک ریاض حکومت کی جانب سے ان مہمان کارکنوں کو اُن کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں مل جاتی، یہ پابندی برقرار رہے گی۔
سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں سے یوگنڈا کے درجنوں شہریوں کو گرفتار کر کے واپس وطن بھیجا جا چکا ہے جبکہ یوگنڈا کے کچھ شہری حراست کے دوران ہلاک بھی ہو گئے، جیسے کہ فلورا ریٹا نانتیزا، جو دبئی کی ایک جیل میں انتقال کر گئیں۔
یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینی حال ہی میں سعودی عرب کے ایک دو روزہ سرکاری دورے سے وطن واپس لوٹے ہیں۔ اُن کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے باہمی تجارتی تعلقات پر تو بات ہوئی لیکن مہمان کارکنوں کے تحفظ کا کوئی ذکر سننے میں نہیں آیا۔