سعودی عرب نے یمن کی ناکہ بندی میں نرمی کر دی
12 اکتوبر 2016ہفتہ آٹھ اکتوبر کو یمنی دارالحکومت صنعاء میں ایک باغی رہنما کے والد کے جنازے کے لیے جمع افراد پر شدید بمباری کے نتیجے میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سعودی اتحادیوں کی اس بمباری کی دنیا بھر مذمت کی گئی تھی جس میں ریاض حکومت کا اتحادی واشنگٹن بھی شامل تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس فضائی حملے کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد 525 سے زائد تھی۔ سعودی قیادت میں مارچ 2015ء میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف شروع کیے جانے والے حملوں میں یہ اب تک کا خونریز ترین حملہ تھا۔ باغیوں کے کنٹرول میں موجود دارالحکومت صنعاء کے محکمہ صحت کے ترجمان تمیم الشمسی نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اس حملے کا نشانہ بننے والے 300 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں اور انہیں علاج معالجے کے لیے ملک سے باہر بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق سعودی شاہ سلمان نے حکام کو احکامات دیے کہ وہ ’’ زخمیوں اور ایسے افراد کو جنہیں بیرون ملک علاج معالجے کی ضرورت ہے ان کو یمن سے نکالنے کے لیے‘‘ سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور اتحادیوں کے ساتھ تعاون کریں۔
سعودی اتحاد نے اپنے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک باغیوں کے زیر قبضہ یمنی علاقوں کی فضائی اور سمندری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ناکہ بندی میں صرف اقوام متحدہ کی پروازوں اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی امدادی سامان پہنچانے والے بحری جہازوں کو استثنیٰ حاصل ہے جو زیادہ تر بحیرہ احمر پر موجود بندرگاہ الحدیدہ کے ذریعے پہنچتی ہے۔
باغیوں کے کنٹرول میں کام کرنے والی یمنی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے منگل 11 اکتوبر کو اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’’سینکڑوں زخمیوں کی جان بچانے کے لیے صنعاء ایئرپورٹ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے فوری اور سنجیدگی سے عمل کرے۔‘‘
سعودی اتحادیوں کی طرف سے ابتدا میں اس فضائی حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا تاہم مغربی ممالک کی طرف سے اس حملے کی مذمت کے بعد اس کی تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اتوار نو اکتوبر کواقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں سعودی عرب کی طرف سے اس حملے پر شدید افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔
سعودی عرب اور اتحادیوں کی طرف سے یمن میں گزشتہ برس مارچ سے جاری بمباری پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک 6800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے دو تہائی تعداد عام شہریوں کی ہے جو اتحادیوں کی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔