سعودی مذہبی امور کی سربراہی اعتدال پسند اسکالر کے ہاتھ میں
3 جون 2018سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے ایک انتہائی اعتدال پسند عالم دین عبدالرحمان ال الشیخ کو اپنے ملک کے سب سے بااختیار مذہبی امور کی وزارت سونپ دی ہے۔ قبل ازیں ال الشیخ مذہبی پولیس کے سربراہ بھی تھے۔ دو برس قبل اس مذہبی پولیس کے وسیع اختیارات کو محدود بھی کیا جا چکا ہے۔ نئی مذہبی امور کے وزیر خواتین کی ملازمت کے اور مخلوط اجتماعات کے حامی بھی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عبدالرحمان ال الشیخ کی تعیناتی یقینی طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحاتی پروگرام کی روشنی میں ہے۔ وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب میں اعتدال پسند اسلام کو فروغ دینا اُن کی بنیادی کوشش ہو گی۔ رواں مہینے کے دوران سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجرا بھی شروع ہو رہا ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیر کی جانب سے جاری کیے جانے والے فرامین میں ملکی وزارت ثقافت کی ازسرنو ترتیب بھی کی گئی ہے۔ اس وزارت کا قلمدان شہزادہ بدر بن عبداللہ بن محمد کو تفویض کیا گیا ہے۔ یہ رواں برس ایک نئے ثقافتی ادارے جنرل کلچرل اتھارٹی کے سربراہ بنائے گئے تھے۔
شہزادہ بدر کی عمر صرف تینتیس برس ہے اور انہیں ولی عہد شہزادہ محمد کے بہت قریب خیال کیا جاتا ہے۔ نئے ثقافتی امور کے وزیر نے سعودی حکومت میں بہت تیزی سے ترقی کی منزل طے کی ہیں۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ اُن کی کوشش ہو گی کہ سعودی عرب میں مزید ثقافتی سرگرمیوں کی راہ ہموار کی جائے۔
سعودی بادشاہ نے مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ کے اطراف کے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بحیرہ احمر کے کنارے پر واقع بندرگاہی شہر جدہ کے تاریخی مقامات کو محفوظ رکھنے کا شاہی فرمان بھی جاری کیا ہے۔
اسی طرح ہفتہ دو جون کو جاری ہونے والے شاہی فرامین کے تحت مختلف مقامات پر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے چھ وسیع رقبوں پر قدرتی علاقے مختص کیے گئے ہیں۔ ان علاقوں کے لیے ڈھائی لاکھ مربع کلومیٹر کا رقبہ مختص کیا گیا ہے۔
سعودی شاہی حکومت نے ایک نمایاں کاروباری شخصیت کو وزیر محنت و سماجی بہبود مقرر کیا ہے۔ نئے وزیر محنت احمد بن سلیمان الراجی ہیں۔ وہ وسیح کاروبار کے مالک ہیں۔ وہ ایک ارب پتی بینکار کے بیٹے ہیں۔ گزشتہ برس الراجی اُن دس بڑے کاروبار حضرات میں شامل تھے، جنہوں نے سعودی اقتصادیات کو بہتر بنانے کے حوالے سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔
اندازوں کے مطابق نئے وزیر محنت کو ہزاروں بیروزگار سعودی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کے شہریوں میں بیروزگاری کی شرح تیرہ فیصد کے قریب ہے۔ سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ سن 2022 تک بارہ لاکھ افراد کو ملازمتیں فراہم کر کے اس شرح کو نو فیصد کی سطح پر لایا جائے۔