سن 2019 پاکستانی معيشت کے ليے کيسا ثابت ہوا؟
28 دسمبر 2019سن 2019 کے آغاز پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپيہ زوال پذیر تھا۔ جنوری میں کرنسی ايکسچينج ريٹ يا شرح تبادلہ ایک سو اڑتیس روپے تیئس پیسے تھی، جو ستائیس جون کو ایک سو چونسٹھ روپے پانچ پیسے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اسی طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی ملکی معیشت کے لیے درد سر تھا اور دیوالیے سے بچنے کے لیے پاکستان نے ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چھ ارب ڈالر سے زائد کے قرضے کا معاہدہ طے کیا۔ اس کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ کیا گیا۔ ساتھ ہی بجلی اور گیس کے نرخ بھی بڑھائے گئے، جس سے افراط زر کی شرح نو سال کی بلند ترین سطح یعنی بارہ فیصد سے بھی تجاوز کر گئی۔ لیکن سال کے آخری چند مہینوں میں معیشت کے حوالے سے چند مثبت خبریں بھی سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ منفی سے مستحکم قرار دیتے ہوئے معیشت میں گرواٹ ختم ہونے کی نوید دی اور خسارہ کم ہونے کی پيشن گوئی بھی کی۔ اس کے ساتھ ہی جریدے ’بلوم برگ‘ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو کارکردگی اور پھر ہنڈریڈ انڈیکس، جس میں کارکردگی کے حساب سے ٹاپ کی ايک سو کمپنیاں شامل ہوتی ہیں، کو دنیا میں پہلے نمبر پر قرار دیا۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی معاشی بہتری کے ان آثار سے کچھ زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''جب بھی کوئی ملک آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے قرضہ لیتا ہے، تو اس سے قبل اس ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب بیان کئے جاتے ہیں لیکن جب قرض کا معاہدہ طے ہو جاتا ہے، تو پھر اس ملک میں بہتری کی باتیں کی جاتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسا آج کل پاکستان ميں ہو رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہد حسن نے مزید کہا، ''آئی آیم ایف نے سب سے پہلے پاکستان کی معیشت میں بہتری کی بات کی، جس کے بعد دیگر ادارے بھی بہتری کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ملک پر غیر ملکی قرضوں کی مالیت ایک سو چھ ارب ڈالر سے بھی زائد ہے، درآمدی اشیاء پر پابندی لگا کر تجارتی خسارہ کم کیا گیا ہے، برآمد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس اگر روزگار کے مواقع بڑھتے تو پیداوار اور برآمدات دونوں میں ہی اضافہ ہوتا۔‘‘
پاکستان اسٹاک ایکسچینج جو معیشت کا بیرومیٹر کہلاتا ہے، کے ہنڈریڈ انڈیکس میں بھی سارے سال گراوٹ دیکھی گئی۔ جنوری میں انڈیکس چالیس ہزار سات سو ننانوے پر تھا، جو دسمبر میں بھی اکتالیس ہزار سے نیچے ہی ہے بلکہ سال کے وسط میں انڈیکس اٹھائیس ہزار پوائنٹس تک گر گیا تھا۔
اس سلسلے میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر عابد علی حبیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب صورت حال کچھ بہتر ہو رہی ہے۔ چیزیں واضح ہو رہی ہیں جبکہ سیاسی صورت حال اور مارکیٹ میں جو بے چینی تھی، وہ بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ ترسیلات میں اضافے اور انفلوز کی وجہ سے نہ صرف شرح مبادلہ میں استحکام آیا ہے، بلکہ زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ رہے ہیں، یعنی مائیکرو اور میکرو اشاریوں میں بہتری آ رہی ہے۔ ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ بھی مستحکم رکھا ہوا ہے۔ ان سب باتوں کو لے کر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، جس سے مارکیٹ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔‘‘
سن 2019 میں پاکستان میں شرح مبادلہ ابتدائی مہینوں میں تو کافی اتار چڑھاؤ سے دوچار رہی۔ صرف امریکی ڈالر کی قیمت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ یورو اور برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں بھی کئی فیصد اضافہ ریکارڈ کی گیا تاہم اب گزشتہ تین چار ماہ سے اس میں بھی استحکام آ گيا ہے۔ سال کے آخر میں امریکی کرنسی چھ ماہ کی کم ترین سطح ایک سو چون روپے پچانوے پیسے تک گر گئی۔ اسی طرح یورو کی قدر بھی جنوری میں ایک سو اٹھاون روپے ستاسی پیسے سے بڑھ کر دسمبر میں ایک سو اکہتر روپے تریسٹھ پیسے کے آس پاس دیکھی گئی۔ سن 2019 کے دوران پاکستانی کرنسی کی بے قدری سے برآمدکنندگان تو خوش رہے کیونکہ ڈالر بڑھنے سے ان کی برآمدی مالیت بڑھ گئی لیکن بیشتر صنعت کار اس سال کو ایک تلخ یاد کے طور پر یاد کر رہے ہیں۔
وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان کے سابق نائب صدر مظہر ناصر کہتے ہیں، ''یہ سال صنعتی شعبے کے لیے کوئی خوشگوار یادیں چھوڑ کر نہیں گیا۔ سارا سال صنعتوں نے مہنگی بجلی اور گیس کا سامنا کیا۔ کئی بار شرح سود میں اضافہ ہوا، جس سے پیداواری لاگت بھی بڑھی۔ صنعتوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔کام کم ہونے پر بعض صنعتوں نے مزدوروں کی چھانٹی بھی کی۔ اس طرح صنعتوں کا منافع بھی کم ہوا لیکن امید ہے کہ سن 2020 پاکستان اور بالخصوص صنعتی شعبے کے لیے خوش آئند ثابت ہو گا۔‘‘
دوسری جانب ماہر اقتصادیات آفاق حسین آنے والے سال سے کافی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ''پاکستان میں اب سرمایہ کاری شروع ہو گئی ہے۔ روس، مصر، ملائیشیا، چین وغیرہ یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب تیس کروڑ ڈالر مل گئے ہیں۔ دوست ممالک ہماری مدد کر رہے ہیں اور صورت حال بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی ترقی کی تصویر ابھی کچھ دھندلی ہے لیکن موجودہ حالات میں اسے با آسانی واضح دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘