سوڈان: حکومت اور باغیوں کے درمیان امن معاہدہ
11 فروری 2013دوحہ معاہدے کے نام سے ہونے والی اس امن کوشش کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خرطوم حکومت کے کچھ مسائل ضرور کم ہو جائیں گے۔ قطر کی نیوز ایجنسی QNA نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سوڈان کے مغربی علاقوں میں موجود دارفور قبائل اور خرطوم حکومت کے درمیان یہ معاہدہ دوحہ حکومت اور اقوام متحدہ کی کوششوں سے طے پایا ہے۔
سوڈان کا یہ مغربی علاقہ، جس کا رقبہ اسپین کے لگ بھگ برابر ہے، 2003ء میں باغیوں کے ہتھیار اٹھانے کے بعد سے باقی ملک سے کٹ کر رہ گیا تھا۔
خرطوم اور جنوبی سوڈان کی جوبا حکومتوں کو علیحدگی کے بعد بھی اپنے اپنے علاقوں میں باغیوں کی جانب سے کارروایئوں اور نسلی بنیادوں پر ہونےوالے واقعات کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سوڈان 1956ء تک برطانوی نوآبادی تھا۔ برطانوی فوجیوں کے انخلاء کے بعد یہ ملک ایک خود مختار ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ کے جانے کے بعد سوڈان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی تقریباً تیس سال تک جاری رہی، جس میں لاکھوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
صدر عمر البشیر نے خانہ جنگی کے خاتمے کیلئے 80ء کے عشرے میں ’کینیا‘ معاہدے پر دستخط کئے، جس میں طے کیا گیا کہ 1985ء سے لے کر 2011ء تک جنگ بندی رہے گی اور اس دوران ملک کے قدرتی وسائل اور دولت کا 60 فیصد حصہ شمالی سوڈان جبکہ 40 فیصد حصہ جنوبی سوڈان کے درمیان تقسیم کیا جائےگا۔
اس معاہدے کے کچھ عرصے بعد جنوبی سوڈان کے باغیوں کے سربراہ جان گیرنگ ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جان گیرنگ کی ہلاکت کے بعد سالاواکر کو جنوبی سوڈان کے باغیوں کا سربراہ مقرر کر دیا گیا، جس نے خرطوم کے ساتھ اپنی جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔
ملک کے شمالی اور جنوبی حصوں کے درمیان عشروں کی خانہ جنگی کے بعد آخرکار 2011 ء میں سوڈان کی حکومت نے جنوبی سوڈان کی خود مختاری کے مطالبے کو تسلیم کر لیا اور اس طرح دسمبر 2011ء میں سوڈان کے جنوبی حصے میں ایک ریفرنڈم کے بعد یہ حصہ ہمیشہ کے لیے سوڈان سے جدا ہو گیا اور ایک آزاد مملکت بن گیا۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ اس تقسیم کے بعد اس خطے میں امن بحال ہو جائے گا تاہم ایسا اب تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ علیحدگی کے بعد بھی خرطو م اور جوبا دونوں جگہوں پر شورش جاری ہے۔
جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد بھی خرطوم حکومت کو اپنے مغربی علاقوں میں ایک طویل عرصے سے بغاوت کا سامنا ہے۔
اسی دوران جنوبی سوڈان کی شورش زدہ ریاست جونگلئی میں تشدد کی حالیہ لہر میں سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ واقعہ جمعے کے روز آکوبوگاؤں میں اس وقت پیش آیا، جب نقل مکانی کر کے جانے والے ایک قبیلے کے مویشی دوسرے مقامی قبیلے کی زمینوں میں داخل ہو گئے۔
ریاست جونگلئی کے گورنر کاؤل من ینگ جُک کے مطابق جمعے کے روز ہونے والے اس واقعے میں ایک سو تین افراد ہلاک ہوگئے۔ جُک کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سترہ حملہ آور اور مویشی لے کر جانے والے قبیلے کے ساتھ آنے والےسوڈان پیپلز لبریشن آرمی کے چودہ فوجی جوان بھی شامل ہیں۔
آکوبو کے علاقے میں نسلی بنیاد پر ہونے والے ان پرتشدد واقعات کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق ایک طویل عرصے سے جنگ کا شکار رہنے کے بعد امن کوششوں میں مصروف جنوبی سوڈانی ریاست جونگلئی کے علاقے میں جنوری 2011ء سے ستمبر 2012ء تک ہونے والے ان واقعات میں اب تک 2600 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
آکوبو کے کمشنر گوئی جویل کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب ہر سال کی طرح لو نیور قبیلے کے لوگ اپنے مویشی لے کر دریائے سوبات عبور کر رہے تھے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والوں کے مطابق حملہ آور برچھیوں، بھالوں اور راکٹوں سے مسلح تھے۔ انہی خدشات کے پیش نظر سوڈان پیپلز لیبریشن آرمی کے سپاہیوں کو اس قافلے کے ہمراہ روانہ کیا گیا تھا۔
گوئی جویل نے امکان ظاہر کیا ہے کہ اس حملہ آور گروپ کی قیادت نسلی بنیادوں پر بنے ایک باغی گروہ مرلی سے تعلق رکھنے والےڈیوڈ یو یو کر رہے تھے۔ جنوبی سوڈان کی فوج سے تعلق رکھنے والے یویو نے 2010ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ناکامی کے بعد ایک باغی گروپ تشکیل دے دیا تھا۔
جنوبی سوڈان کی جانب سے مسلسل یہ الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ سوڈان کی خرطوم حکومتی یویو کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اسے بھاری ہتھیار فراہم کیے جاتے رہے ہیں جبکہ خرطوم حکومت ان الزامات سے انکار کرتی رہی ہے۔
(zb/aa(ap