سوڈان کے پرامن مظاہروں میں خواتین کی طاقت
19 اپریل 2019سوڈان میں عمر البشیر کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ دسمبر سن 2018 میں شروع ہوا اور انجام کار گیارہ اپریل کو فوج نے انہیں منصب صدارت سے ہٹا دیا۔ اس احتجاجی سلسلے میں سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن نے مظاہرین کو منتشر نہیں ہونے دیا اور جہاں انہیں اتحاد و اتفاق کی تلقین کی وہاں انہیں پرتشدد ہنگامہ آرائی سے بھی دور رکھا۔
سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن کی فعال کارکن سارا عبد جلیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس دسمبر سے شروع ہونے والے احتجاج کے دوران خواتین ہلاک بھی ہوئیں لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں اور تقریباً سبھی شہروں میں مظاہرین کے ساتھ ساتھ رہیں۔ سارہ نے اس تحریک کا حصہ رہنے پر فخر کا اظہار بھی کیا۔
سارہ عبد جلیل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کئی مہینوں کے اس طویل احتجاجی سلسلے میں کئی خواتین کو سکیورٹی اداروں نے حراست میں بھی لیا لیکن اُن کی استقامت اور مزاحمت میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ ان کے خیال میں یہ قابل فخر بات ہے کہ ایک طرف حکومتی جبر کا تسلسل رہا تو دوسری جانب سوڈانی خواتین کے حوصلے میں کمی نہیں آئی۔
صومالی سیاستدان فیضیمو قاسم ضیاب مشرقی افریقی ممالک میں مظاہروں پر گہری نگاہ رکھتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سوڈانی خواتین نے عمر البشیر کے خلاف پرامن مظاہروں کو ایک مخصوص حیثیت اور رنگ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مظاہرے شروع ہوئے تو سوڈانی خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور ان کی موجودگی نے احتجاجی تحریک میں تیزی و شدت پیدا کی۔ ضیاب نے سوڈانی خواتین کے تحریک کے دوران عزم و حوصلہ برقرار رکھنے کو غیرمعمولی قرار دیا۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ تیس برسوں کے درمیان سوڈان میں خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔ ان کے بنیادی حقوق کو تہ تیغ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ سوڈانی خواتین کو اسلامی ضوابط کی سخت تشریحات کو برداشت کرنا پڑا۔ احتجاجی تحریک میں خواتین کی شمولیت حقیقت میں سیاست و تعلیم کے شعبوں میں مساویانہ حقوق کا مطالبہ بھی خیال کیا گیا ہے۔
سارہ عبد جلیل نے سوڈانی تحریک کو ’عرب اسپرنگ‘ سے مشابہت دیتے ہوئے اسے ’افریقن اسپرنگ‘ کا نام دیا ہے۔ سارہ کا خیال ہے کہ یہ تحریک افریقہ کے دوسرے آمریت کے حامل ملکوں میں بھی پرامن تحریکوں کو شروع کرنے کی راہ ہموار کریں گی۔ ان کے خیال میں ایک پرامن مزاحمت او اتحاد کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔