بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی پہلی تربیت تو بلاشبہ ان کی ماں ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے بعد مختلف علوم حاصل کرنے کے لیے ان کو سکول جانا ہوتا ہے۔ والدین جب بھی اپنے بچے کے لیے کسی درسگاہ کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ لازمی ہوتا ہے کہ درسگاہ میں بچے محفوظ رہیں، وہاں وہ پڑھنے لکھنے کے عمل سے لطف اندوز ہوں اور وہ تعلیم حاصل کرے ایک قابل شہری بن سکیں تاکہ وہ زندگی میں کامیاب ہو سکیں۔
جب ہم بچوں کی سکول میں حفاظت کی بات کرتے ہیں تو یہ ان کو صرف جسمانی طور پر زخمی ہونے سے بچانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ان کی ذہنی صحت کی حفاظت بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جیسا ماحول آج کل ہے اس میں بچوں کی حفاظت بڑھتے ہوئے نشے اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے بھی کرنا ضروری ہے۔ 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کے حقوق کی عالمی فہرست میں پاکستان 136ویں نمبر پر ہے۔
سکولوں میں ہونے والا تشدد اس صورت حال کو بدتر بنا رہا ہے۔ مگر اس تشدد کی روک تھام کی ساری ذمہ داری سکول یا اساتذہ پر ہی لاگو نہیں ہوتی بلکہ والدین کو بھی اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
بچوں کی حفاظت کے لیے متعدد پالیسیاں، قوانین اور طریقہ کار موجود ہیں۔ ان سب کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بچے محفوظ رہیں۔ اور یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کی وجہ سے سکول کے عملے کے کسی بھی طرح کے برے رویے سے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ان واضح اصولوں اور ہدایات کی موجودگی میں ہر کوئی اپنا کام اچھے طریقے سے کرے۔ ان اصول و قوانین پر عمل کروانا ضروری ہے اور اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو نتائج منفی بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ مگر اس سب احتیاط کے باوجود مختلف واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جن پر اکثر والدین کی جانب سے احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے۔ مگر ان میں سے بہت سے والدین کو اس مسئلے سے نمٹنے کا قانونی طریقہ نہیں معلوم ہوتا اس لیے وہ احتجاج کے باوجود وہ حقوق نہیں لے پاتے، جو سکول میں تحفظ کی غرض سے قانون ان کو تفویض کرتا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کا سیکشن 89 بچوں کو تربیت کے لیے مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا ناجائز فائدہ سکولوں کے اساتذہ نے خوب اٹھایا اور اسی وجہ سے کئی بچوں کے جان سے جانے کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سال 2012/13 میں اس سیکشن کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا گیا تھا۔ لیکن اس بل کو سینٹ نے منظور نہیں کیا۔ اسلام آبا ہائی کورٹ اس سیکشن کو پہلے ہی نئے قانون سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ اس سیکشن کی موجودگی میں بچوں کے تشدد کے خلاف بنائے گئے قوانین اتنے مؤثر نہیں رہتے جتنا ان کو ہونا چاہیے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم سپارک کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 35000 کے قریب بچے صرف (کارپورل پنشمنٹ) جسمانی سزا کی وجہ سے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ جبکہ اس کے خلا ف قانون موجود ہے، جو کہ 160 سال پرانا ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اس تناظر میں دی جانے والی ایک درخواست کو بنیاد بناتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئین کے آرٹیکل 14، جو بچوں کے عزت نفس ضمانت دیتا ہے، کے تحت سکولوں میں جسمانی تشدد پر پابندی لگا دی۔
بچوں پر سکولوں میں تشدد کی روک تھام کے لیے ایک بل قومی اسمبلی سے2019ء میں منظور ہوا تھا لیکن سینٹ نے اس کو پاس نہیں کیا۔ تاہم بعد ازاں اسی مذکورہ بل کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے سن2021 میں منظور کیا۔ اس بل کے مطابق بچے پر تشدد کرنے والے استاد کو جرمانہ یا نوکری سے برخاست کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ سکول کو ایک مخصوص رقم جرمانے میں ادا کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری تعلیمی ادارے یا دینی مدرسے میں بچوں کے بال کھینچنا، کان پکڑوانا، کرنٹ لگانا، ہاتھ بیلٹ یا کسی بھی اور چیز سے مارنا غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بل صرف اسلام آباد کے لیے مؤثر ہے۔ جبکہ اس بل کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلایا جانا چاہیے۔ صوبائی سطح پر جو قوانین اس حوالے سے موجود ہیں وہ کسی حد تک والدین کے لیے مددگار ہیں، کہ وہ اپنے بچوں کا اس ظلم سے تحفظ کرسکتے ہیں۔
قانون بنانا کافی نہیں اب جو چیز ضروری ہے وہ اس قانون کے نفاذ کے لیے پروٹوکول بنانے ہیں اور اس کے علاوہ یہ کہ جرمانے اور سزائیں کیسے دی جائیں۔ اس کے بارے میں سکولوں میں موجود ہر طالب علم کے والدین کو بتایا جانا چاہیے۔ زیادہ تر والدین کو اس نئے قانون کے بارے معلوم نہیں ہے۔ اسی لا علمی کے باعث بہت سے بچے آج بھی اس ظلم کو برداشت کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بہت عرصہ لگا ان قوانین کو ایک شکل دینے میں لیکن ابھی بھی بچوں کو جو سکولوں میں ذہنی اذیت دی جاتی ہے اس کے بارے کسی بھی قسم کا قانون موجود نہیں ہے۔ اس میں بچوں کو بچوں کے سامنے بے عزت کرنا، بینچ پر کھڑے کر دینا، سزا کے طور پر ان کو کلاس کی طرف منہ کر کے کھڑا کرنا یا ان کو کلاس سے نکالنا یا پھر ان کے کسی جسمانی کمی پر طنز کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ جسمانی تشدد کے علاوہ ذہنی اذیت بھی ایک ایسا عنصر ہے، جس کی وجہ سے بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔