’سیاسی جلسے اور دھرنے تعلیمی اداروں کے لیے زہر قاتل‘
31 اکتوبر 2019آج وفاقی دارالحکومت میں ہزاروں کی تعداد میں کینٹینرز رکھ دیے گئے ہیں جب کہ بڑی تعداد میں پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی جڑواں شہروں کے طول و عرض پر کل رات سے ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ دونوں شہروں کے پرائیویٹ اسکول اور قائد اعظم یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ اسلام آباد کے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سروسز بھی معطل ہے، جس کی وجہ سے شہری اور کاروباری حضرات بہت پریشان ہیں۔
اسلام آباد کے ایف ایٹ مرکز میں کھڑے ٹیکسی ڈرائیور لال خان کا کہنا ہے کہ اس دھرنے سے غریب آدمی کو کیا ملے گا؟ اس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''مہنگائی پہلے ہی آسمان پر ہے۔ تین دن سے کام ویسے ہی نہیں ہو رہا تھا اور اب یہ دھر نا آ گیا ہے۔ صبح سے کھڑا ہوں لیکن اب تک کوئی مسافر نہیں ملا۔ ان سیاست دانوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ عام آدمی زندگی کیسے گزار رہا ہے؟ اگر مجھے پسینجر نہیں ملیں گے تو میں گھر کیسے چلاوں گا، بچوں کی فیس کیسے ادا کروں گا اور بجلی کا بل کیسے ادا کروں گا؟ یقینا فضل الرحمان تو میری مدد کو نہیں آئیں گے۔‘‘
گزشتہ پانچ برسوں میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں طالب علموں کی پڑھائی کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ عمران خان کے دھرنے اور اس کے بعد تحریک لیبک کے دھرنے نے اسکولوں کو بہت متاثر کیا۔ دارالحکومت میں بسنے والے کئی شہریوں کا کہنا ہے کہ سیاسی جلسے جلوس اور دھرنے تعلیمی اداروں کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اسلام آباد کے علاقے غوری ٹاوں سے تعلق رکھنے والے مشتاق شاہ نے دھرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پرائیویٹ اسکول پہلے ہی مختلف بہانوں سے کلاسسز کم رکھتے ہیں اور پھر سیاسی جلسے، جلوس اور دھرنے کی وجہ سے انہیں اور بہانہ مل جاتا ہے کہ وہ اسکول بند کریں۔ پورے شہر کے اسکول بند ہیں۔ لوگوں میں خوف کا ماحول ہے۔ تو ایسے میں کون اپنے بچوں کو اسکول بھیجے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ جلسے، جلسوں اور دھرنے کی جگہ شہر کے آباد علاقوں سے کم از کم تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہو تاکہ اسکول، کالج، بازار اور کاروبار زندگی متاثر نہ ہو۔‘‘
حالیہ مہینوں میں حکومتی اقدامات اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے کاروبار اور معیشت پہلے ہی بہت متاثر ہوئے ہیں۔ کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دھرنوں سے اسلام آباد کے بلیو ایر یا اور دوسرے علاقوں کا کاروبار بالکل زیر و پر آجاتا ہے۔ اسلام آباد کی آبپارہ مارکیٹ میں گاہکوں کا انتظار کرنے والے منظور اعوان کہتے ہیں کہ کاروبار پہلے ہی شناختی کارڈ کی شرط کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، ''اور اب یہ دھرنا شروع ہو گیا ہے۔ لبیک والے دھرنے کے بعد لوگ مولویوں سے ڈرے ہوئے ہیں اور اگر مولانا فضل الرحمان کا دھرنا پر امن بھی ہو جب بھی لوگوں باہر نہیں نکل رہے۔ صبح سے لے کر اب تک بظاہر ہی کوئی کاروبار ہوا ہے اور خدشہ یہ ہے کہ مولانا ایک بار آ کر اٹھیں گے نہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا شہر ایک بار پھر کئی دنوں تک یرغمال بنا رہے گا اور حکومت تماشہ دیکھتی رہے گی۔‘‘
وزیراعظم عمران خان یہ وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر دھرنے والوں نے قانون ہاتھ میں لیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی لیکن کئی شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان بڑی تعداد میں لوگ لے آئے تو پھر ان کو اٹھانا مشکل ہو گا۔ جڑواں شہروں کے باسیوں کی یہ خیال زور پکڑ رہا ہے کہ لوگوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ راولپنڈی کے علاقے گلزار قائد سے تعلق رکھنے والے راجہ منصور کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے آج گاڑی نہیں نکال رہے،''میں انڈوں کی سپلائی کا کام کرتا ہوں اور میں نے گاڑی بینک سے قرض پر لی ہے۔ میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے بینک سے قرض پر گاڑیاں لیں اور وہ جلسے، جلسوں اور دھرنوں کے دوران جلا دی گئیں تو میں یہ رسک لینا نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں حکومت کو قانون بنانا چاہیے کہ جو پارٹی بھی دھرنا دے وہ شہریوں کے نقصان کا بھی ازالہ کرے۔‘‘
اسلام آباد کے دھرنوں اور جلسوں کی صورت میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کی لمبی لمبی ڈیوٹیاں لگ جاتی ہیں۔ ایک طرف یہ اہلکار لمبی ڈیوٹیاں کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کو زخمی ہونے کا بھی ڈر لگا رہتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاوس کے قریب میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اتوار کو ایک رشتے دار کی شادی ہے اور پرسوں پتہ چلا کہ چھٹی منسوخ ہوگئی ہے۔ اب نہ جانے کب تک یہاں ڈیوٹی کرنی پڑے گی۔ ایک طرف ڈیوٹی کرو، افسران کی ڈانٹ سنو اور دوسری طرف عوام کے غصے کا بھی سامنے کرو۔ اب اس دھرنے کے بعد میں اسلام آباد سے ٹرانسفر کراؤں گا۔‘‘
لیکن کچھ لوگ دھرنے کا دفاع کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مری روڈ سے تعلق رکھنے والے سردار حفیظ کہتے ہیں کہ بڑے مقاصد کے لئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ انہوں نے اس دھرنے کا دفاع کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس حکومت نے مہنگائی بڑھائی، یو ٹرن لیے، لوگوں کو بے روزگار کیا، جھوٹے وعدے کیے اور ملک کا بیٹرہ غرق کیا۔ اس کے خلاف اٹھنا سب پر فرض ہے۔ مجھے فضل الرحمان پسند نہیں لیکن اس حکومت کو ہٹانے کے معاملے پر میں ان کے ساتھ ہوں۔‘‘
مولانا فضل الرحمان کے مارچ کو آج اسلام آباد پہنچنا اور جلسہ کرنا تھا لیکن پنجاب میں ٹرین حادثے کی وجہ سے اب یہ جلسہ کل تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ تاہم اسلام آباد میں ہو کا عالم بد دستور قائم ہے۔